2021ء میں احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے چار افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن کر ہلاک کیا گیا۔ حملوں کی اس لہر کے بعد کئی احمدی خاندان نقل مکانی کر گئے ہیں، جن میں سے کچھ بیرون ملک چلے گئے ہیں جبکہ دیگر جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
پاکستان میں 2017ء کی مردم شماری کا اگر 1998ء سے موازانہ کیا جائے تو ملک میں احمدی برادری کی آبادی میں واضح کمی نظر آتی ہے۔ گذشتہ سال جاری کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق احمدی برادری پاکستان کی مجموعی آبادی کا لگ بھگ 0.09 فیصد ہے جبکہ 1998ء میں ان کی آبادی 0.22 فیصد تھی۔ الیکشن کمیشن نے 2018ء میں احمدی ووٹرز کی تعداد 1 لاکھ 67 ہزار بتائی تھی جن کی اکثریت صوبہ پنجاب اور سندھ میں آباد ہے۔
جماعت احمدیہ کے ترجمان نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ظلم وستم کی وجہ سے پاکستان میں رہنے والے احمدی افراد کی نقل مکانی کا سلسلہ 1980ء سے جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آبادی میں فطری اضافےکے حساب سے بھی یہ تعداد بہت کم ہے۔ ان کا کہنا کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں احمدی برادری کی آبادی 4 سے 5 لاکھ کے درمیان ہے۔
دوسری جانب حافظ طاہر محمود اشرفی نے یہ بات تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا ہے کہ پاکستان میں احمدی برادری کی آبادی میں اتنی بڑی کمی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ احمدی برادری کے لوگ ناصرف یہاں کاروبار اور تجارت سے منسلک ہیں بلکہ بڑے بڑے عہدوں پر بھی فائز ہیں لیکن ان میں سے بیشتر نے اپنی شناخت مخفی رکھی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انھیں بیرون ملک جانے کا موقع ملتا ہے تو وہ اسے حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ میں ذاتی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے باہر جانے کے لئے خود اپنے خلاف مقدمات درج کروائے۔
خیال رہے کہ 26 اپریل 1984ء کو پاکستان میں آرڈیننس 20 کا نفاذ کیا گیا جس کے تحت 1974ء میں غیر مسلم قرار دیے گئے احمدی افراد پر اسلامی شعائر اپنانا اور ان پر عمل کرنا بھی قابل تعزیر جرم قرار پایا اور احمدی برادری کے افراد پر خود کو مسلمان کہلانے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ اس وقت جنرل ضیا الحق کی حکومت تھی۔
احمدی کمیونٹی کی ہلاکتوں کا سلسلہ یکم مئی 1984ء سے شروع ہوا۔ جماعت احمدیہ کے مطابق گذشتہ 38 برس میں احمدی برادری کے 273 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سب سے زیادہ ہلاکتیں پنجاب میں ہوئیں جو کل ہلاکتوں کا 69 فیصد ہے۔ دوسرے نمبر پر سندھ ہے جہاں 23 فیصد ہلاکتیں ہوئیں ہیں۔ اس کے بعد خیبرپختونخوا میں پانچ فیصد اور بلوچستان میں تین فیصد ہلاکتیں ہوئیں۔ البتہ گذشتہ کچھ عرصے میں خیبر پختونخوا میں حملے اور ہلاکتیں زیادہ دیکھے گئے ہیں۔