ان کی بے رخی پر برف ڈالتا کرسمس، اور ہماری قبول ہوتی دعا

ان کی بے رخی پر برف ڈالتا کرسمس، اور ہماری قبول ہوتی دعا
تو صاحبو! ہم نے منہ بنا کر آنکھیں اوپر کو رول کیں تو اللہ تعالیٰ نے سن لی۔ اب ہم گھر میں آرام سے بیٹھ کر مسکرا رہے ہیں۔

ادھر اکتوبر کے اوائل میں جب ہمارا ٹماٹر کا پودا بہت سارے سبز ٹماٹروں سے بھر گیا تھا اور سٹرابیری کے ننھے سے گملے میں دسیوں ننھی منی سٹرابیریز کا کنڈرگارٹن بن گیا تھا، ہتھیلی برابر بڑی بڑی مرچیں پتوں کے آنچل سے چہرے چھپائے مسکرایا، لجایا کرتی تھیں۔ پودینہ الگ شان دکھا رہا تھا۔ تو اسی وقت غیر متوقع طور پر شدید برف باری ہو گئی۔

ہم گملوں کو اندر اٹھا لائے مگر صبح شام دوڑائے رکھنے والی مصروفیات نے  کیاری میں لگے پودوں سے بے وفائی پر مجبور کر دیا۔

سارے ٹماٹر، ہرا بھرا پودینہ، چند بچ رہیں مرچیں برف کی بھاری چادر تلے دب گئیں۔

ٹماٹروں کے آنکھوں میں برف کی قبر میں زندہ دفن ہوتے سمے اس بیوفائی کا صدمہ بس گیا ہوگا۔

ٹھنڈ میں مرتے ہوئے انہوں نے دکھ سے سوچا ہوگا کہ وہ اظہار محبت، وہ دعوے، وہ ناز اٹھانا، وہ سب خواب تھا یا دھوکہ؟

یہ احساس جرم ہمارے سینے میں ایساُ جاگزیں ہوا کہ ہم اپنے انڈور پودوں کی طرف سے بھی لاپروا ہو گئے۔

جب پانی دینے لگتے، ٹماٹروں سے لدی شاخیں دل میں کانٹے چبھونے لگتیں۔ جب سوکھے پتے ہٹانے کا سوچتے پودینے کے چمکدار پتوں کا مرجھایا روپ سارے جذبے نچوڑ لیتا۔

شہر بھر میں چرچے تھے کہ اس بار سردی شدید پڑے گی کہ برف نے پت جھڑ کا بھی انتظار نہ کیا۔

مگر پھر ہوا یوں کہ بے صبری اور سرخ و نارنجی  رنگوں سے سجی خزاں سے جلتی برفباری اپنی باری کے موقع پر لمبی تان کر سو گئیں۔

نومبر گزرا۔ دسمبر چلا آیا۔ کرسمس کی تیاریوں کی گہما گہمی ہے۔ لوگ باگ قمقمے لگا رہے ہیں، شاپنگ کر رہے ہیں مگر سڑکیں ایسے پڑی ہیں جیسے ماسی ابھی بھی جھاڑو پھیر، دھو دھا کر گئی ہو۔

برف کا نام و نشان نہیں۔

ہم انگلی ناک پر رکھ کرسوچتے ہیں کہ ’اے نوج! ایسی بے برف کی کرسمس! نہ دیکھی نہ سنی ‘

حال یہ تھا کہ برف باری نہ ہونے کی بنا پر ایسا دھوکہ ہوا کہ بنا موزوں اور برفانی جیکٹ کے ادائیں دکھاتے بلیزر سٹائل کوٹ میں نکل گئے۔

نتیجتاً ہمیں بھی وہ زکام ہوا کہ خدا کی پناہ۔ بارے زکام کے عرض ہے کہ اسے ہم انتہائی رومانٹک بیماری سمجھا کرتے تھے۔

سرخ ناک کو بار بار پونچھتی، ہلکے بخار سے بے حال ہیروئن  کس قدر پیاری لگتی ہے۔ چھینکیں تو اس کی معصومیت اور Naivety کا دلربا اظہار معلوم ہوتی تھیں۔ اسی لئے ایک آدھ افسانے میں ہماری ہیروئن کا یہ حال بھی دکھایا گیا۔

مگر صاحبو!

حقیقت کی انکھیں کھلیں تو جاگ اٹھیں حسرتیں تمام
اس کو بھی کھو دیا جسے پایا تھا خواب میں

مطلب یہ کہ کئی مرتبہ صاحب سے پوچھا، ہم چھینکتے ہیں تو آپ کو ہماری معصومیت پر پیار آتا ہے؟

وہ ایسے دیکھنے لگے گویا ہم نے تیسری مرتبہ دوڑ کر بازار سے دہی لانے کا مطالبہ کر دیا ہو۔

فلو سے نڈھال سرخ کمبل لپیٹے صوفے پر بدن سکیڑ کر لیٹ رہے۔ ضد کر کے آتش دان روشن کروایا۔ آنکھوں کو ذرا نیم باز کیا اور پیشانی پر ان کا ہاتھ پکڑ کر رکھا۔

’دیکھیے! بخار ہو رہا ہے نا۔ بڑی بری حالت ہے‘

صاحب نے نہایت شفقت سے پیشانی چھوئی، بردباری سے کہا

’ہاں ہلکی سی حرارت تو ہے مگر ایسا تیز بخار تو نہیں لگتا‘۔

پھر کمال عیاری سےاسی مدعے پر آئے جس سے ہماری تمناؤں کا خون ہو جایا کرتا ہے۔

’میں عشاء کے لئے نکل رہا ہوں ۔ پھر مسجد میں اہم میٹنگ ہے۔ آپ کی طبیعت تو ویسے بھی ناساز ہے۔ آرام کریں۔ مجھے دیر ہوجائے گی‘۔

ہم نے کینہ توز نظروں سے آتش دان کو دیکھا کہ جیسے رومان کا سارا بخا ر اسی کا قصور ہو اور ناچار فیض اور اقبال کی شاعری سے اپنی یخ بستہ ٹھٹھری ہوئی زندگی کو گرمانے کی کوشش کرنے لگے۔

اوہ تو وہ راہنورد شوق ہمارے ہی صاحب ہیں کہ جن کے لئے اقبال فرما گئے،

لیلیٰ بھی ہم نشیں ہوتو محمل نہ کر قبول؀

اس پل ایک مرتبہ پھر خواتین کے رسالوں کے خلاف بغض دل میں پکنے لگا۔

خیر تو ایسا ہے کہ بن برف کے کرسمس یوں سمجھ لیں گویا بنا ابٹن مہندی کے بنّو۔

تو ایسے میں سوچ نے ایک نیا موڑ لیا۔

احساس جرم شکوہ میں ڈھلنے لگا۔

آنکھیں سر پر رکھیں اور منہ بنا کر اللہ تعالیٰ کو فون ملایا۔

“ہماری مرتبہ میں تو آپ نے برف باری کروا دی۔ ہمارے مسلمان ٹماٹر جان سے گئے۔

اور ان کافروں کے تہوار پر برفباری کاُ نشان بھی نہیں۔ اب یہ کھل کھیلیں گے۔ خوش پھریں گے۔

پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں

تو رات ہوا یوں کہ جب ہم دھڑلے سے اپنی پاکستانی نازک سی گلابی سینڈل پہنے گاڑی سے باہر نکلے۔ برفباری شروع ہو چکی تھی۔

نازک سی سینڈل برف میں دھنسنے لگی۔ اور انگوٹھیاں ٹھنڈی ہو کر ہاتھوں کو ٹھنڈ سے داغنے لگیں۔

کچھ دیر بعد جب برفباری نے شدت پکڑی تو ہماری ساس گھبرا کر پوچھنے لگیں

“کیا ساری رات برف پڑے گی؟”

ہم نے ایک ادائے بے نیازی سے یخ بستہ لہجے میں فرمایا

“ہوتی ہے تو ہونے دیں۔ اب کرسمس پر بھی برف نہ پڑے گی۔”

اب باکسنگ ڈے کی صبح دھند اور برف سے ڈھکی ہے۔ گلیوں میں ہوا کا شور ہے۔ اور ہم گھر میں آرام سے بیٹھے مسکرا رہے ہیں۔

مصنفہ طب اور نفسیات کی طالبہ، کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں اور کمیونیٹی ورک میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ اردو اور انگریزی ادب سے خاص لگاؤ ہے، چھوٹی عمر سے میگزینز میں لکھ رہی ہیں۔