عامر غوری نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان جس ادارے سے اپنی امیدیں لگا کر بیٹھے ہیں وہاں مسلسل سوچ بچار کا عمل چلتا رہتا ہے۔ ان کو بھی بڑی پریشانی لاحق ہو چکی کہ ملک کے حالات کس جانب چل پڑے ہیں۔ ایسے حالات کے اندر جہاں پاکستان کو اپنا بے پناہ خرچہ دفاع کیلئے کرنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزارت خزانہ نے رپورٹ دی ہے کہ پاکستان کا مالی خسارہ اور مہنگائی کا بڑھتا ہوا دبائو صرف اسی صورت کنٹرول ہونگے جب اوورسیز پاکستانی ملک میں زرمبادلہ بھیجتے رہیں۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں ملکی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے عامر غوری کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کیساتھ پاکستان کے معاملات تباہ ہو چکے ہیں جبکہ دیگر میں بھی ابھی تک ان سے کچھ نہیں ہو سکا۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان 100 روپے کماتا ہے تو اس میں سے 85 روپے صرف اسے قرضوں کا سود واپس کرنے کیلئے ادا کرنا پڑ رہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ پاکستان کے خدانخواستہ حالات ایسے نہ ہو جائیں کہ سرکاری ملازمین کی پینشنز تو کیا ان کی تنخواہیں بھی ادا نہ کر سکے، تو پھر عوام کیلئے کیا بچے گا، ہم اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔
نواز شریف کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے عامر غوری نے کہا کہ حکومت ان کو واپس لانے کے معاملے میں گذشتہ دو سالوں سے فیل ہوئی ہے۔ برطانوی حکومت نے ان کی باتیں تو بہت زیادہ سنیں لیکن زیادہ گھاس نہیں ڈالی۔ میری اطلاعات ہیں کہ لیگی قائد کیلئے برطانیہ میں ویزے کا کوئی ایشو نہیں لیکن ان کے پاسپورٹ کی معیاد ختم ہو چکی ہے۔ اسی پر پاکستان میں خوب سیاست کی جا رہی ہے۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے رضا رومی کا کہنا تھا کہ برطانیہ نے حال ہی میں ملک ریاض کا ویزا منسوخ کیا۔ برطانوی کرائم ایجنسی نے ان کی منی لانڈرنگ کو پکڑا اور اسے ثابت کرکے ان کیخلاف یہ اقدام اٹھایا لیکن اس کا ذکر ہماری کابینہ نہیں کرتی۔ دوسری جانب ایسا شخص جس کا کیس ثابت ہی نہیں ہوا اس کے ویزے کی انھیں بہت تشویش ہے۔ یہ ساری باتیں ڈھکوسلا ہیں۔ پی ٹی آئی کے سارے وزرا ایک ہی لائن پر بات کر رہے ہیں کہ چونکہ میاں نواز شریف کا ویزا ختم ہو رہا ہے اس لئے وہ پاکستان آ رہے ہیں لیکن کوئی اصل بات کرنے کو تیار نہیں کہ ان کے واپس آنے کے اسباب اور محرکات کیا ہونگے۔
عامر غوری کا کہنا تھا کہ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ وزیر داخلہ کو کہنا پڑا کہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہمارے سر سے اٹھا نہیں ہے۔ اگر پی ٹی آئی کے پیچھے عوام کھڑی ہے تو انھیں کسی چیز کی فکر کرنے کی قطعی ضرورت نہیں لیکن ان کی جڑیں ریت میں لگے پودے کی طرح ہیں جو زیادہ گہری نہیں ہو سکیں۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ نواز شریف نہ طبی اور نہ ہی کسی قانونی وجوہات کی وجہ سے پاکستان واپس آئیں گے۔ وہ صرف اور صرف سیاسی وجوہات کی وجہ سے ہی واپسی کرینگے۔ اگر سیاسی طور پر ملک میں آنے سے ان کو اور مسلم لیگ ن کو فائدہ ہوگا تو وہ یہ فیصلہ کرلیں گے کیونکہ ماضی میں بھی انہوں نے یہی کیا تھا۔
ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے عامر غوری کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت پرفارم کرتی تو ہو سکتا ہے کہ نواز شریف واپس آنے کا نہ سوچتے لیکن اصل ایشو پاکستان ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی لیڈرشپ کو مختلف ہتھکنڈوں سے نکالنے کی کوشش کسی طرح سے کامیاب نہیں ہو رہی۔ آخرکار اس ملک کو چلانا تو سیاستدانوں نے ہی ہے۔ ڈیل اس بات پر تو ہو سکتی ہے کہ ہم نے نواز شریف کو آتے ساتھ ہی وزیراعظم نہیں بننے دینا، اس کیلئے کوئی اور بندہ ڈھونڈا جائے، اس پر بات چیت ہوگی۔