مرتضیٰ علی شاہ اور ان کے صحافی بھائی مجتبیٰ علی شاہ نے برطانیہ میں جاری ہتک عزت کا مقدمہ جیت لیا۔ جج نے قانونی اخراجات کی مد میں ہرجانے کے طور پر 75ہزار پونڈ دونوں بھائیوں کو اداکرنے کا بھی حکم دیا۔
برطانیہ کے ہائیکورٹ نے سوشل میڈیا سائٹس پر ان کے بارے میں جھوٹے اور بدنیتی پر مبنی الزامات کی سماعت کی۔
صحافی مرتضیٰ اور مجتبیٰ علی شاہ نے دو افراد اور ایک قانونی فرم کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا جب ان پر سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی ایک پریس ریلیز میں بدعنوانی، تشدد اور غنڈہ گردی کے الزامات لگائے گئے تھے۔ مرتضیٰ اور مجتبیٰ علی شاہ کو بدنام کرنے کےلیے واٹس ایپ اور ٹویٹر کو استعمال کیا گیا۔
ہتک عزت کا مقدمہ 2019 میں اس وقت شروع کیا گیا جب سالیسٹر اعجاز احمد، ان کی فرم پیور لیگل سالیسیٹرز اور راجہ عثمان ارشد نے برطانوی شہری بیرسٹر فہد ملک کے قتل کے حوالے سے لندن میں ایک پریس کانفرنس کی جنہیں 2016 میں اسلام آباد میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
برطانوی ہائیکورٹ کی جج جسٹس مسزکولینز رائس نے کہاکہ دونوں بھائیوں کو بدنام کیاگیا۔ ان کی زندگیاں خطرے میں ڈالی گئیں۔
جسٹس کولینز نے اس حوالے سے اعجاز احمد کی درخواست مسترد کردی کہ وہ منشیات کا عادی اور اس حوالے سے ذہنی معذور ہے تاہم یہ جعلی خبر بنانے اور مرتضیٰ علی شاہ کو ہدف بنانے کےلیے جعلی فوٹو شاپ کا استعمال کیا گیا لندن میں مرتضیٰ علی شاہ کے خاندان پر حملہ بھی کیا گیا۔
مرتضیٰ علی شاہ دی نیوز انٹرنیشنل اور جیو ٹی وی کے لندن میں رپورٹر ہیں اور ان کے بھائی مجتبیٰ علی شاہ ہم نیوز سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے اپنے بھائی مجتبیٰ علی شاہ کے ساتھ ہتک عزت کا ایک بڑا مقدمہ جیتا ہے۔ جن کے خلاف سوشل میڈیا پر مذموم اورگھناؤنے الزامات عائد کیے گئے۔ ہتک عزت کےلیے سوشل میڈیا کو استعمال کیے جانے پر یہ برطانیہ میں اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ تھا۔
جنہیں انگلینڈ اور ویلز کے سولیسٹر اعجاز احمد نے بدنام کیا۔ جس میں ان کی قانونی فرم پیورلیگل سولیسٹرز اور راجا عثمان ارشد بھی شریک ہیں۔ جنہیں پاکستانی نژاد برطانوی بیرسٹر فہد ملک کے قتل پر سزا ہوئی۔ جج نے قانونی اخراجات کی مد سے ہرجانے کے طور پر 75ہزار پونڈ دونوں بھائیوں کو اداکرنے کا بھی حکم دیا۔مدعا علیہان کو بیرون عدالت معاملہ حل کرنے کے کئی مواقع ملے لیکن انہوں نے اس سے انکار ہی کیا۔ عدالتی کارروائی کے دورا ن لندن ہائی کورٹ میں ہتک عزت مقدمات کے انچارج جسٹس نکلن نے حکم جاری کیاکہ مدعا علیہان کے خلاف مقدمات میں عدم حاضری اور عدم تعمیل کی ایک تاریخ ہے۔ اگر یہ عمل جاری رہا تو ان پر پابندیاں لگانا ہوں گی۔
جج نے اعجاز احمد اور عثمان ارشد کے رویوں کی مذمت کی اعجاز احمد کے بیٹے آدم احمد نے تحریری بیان میں عدالت کو بتایا کہ ان کے کسی ساتھی نے انہیں غیر قانونی نشہ آور اشیاء دیں جس نے ان کی ذہنی صحت کو متاثر کیا۔ آدم احمد نے دعویٰ کیا کہ ان کے والد نے زیادہ مقدار میں ایسی اشیاء لے کر خودکشی کی بھی کوشش کی تھی۔ وہ ذہنی امراض کے اسپتال میں زیرعلاج بھی رہے مدعاعلیہان نے عدالتی فیصلے کے خلاف کوئی اپیل دائر نہیں کی۔
صحافی برادران نے اپنے حق میں عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ اپنے بیان میں دونوں صحافیوں نے کہا کہ اس مقدمے میں ہراساں کیے جانے، جھوٹے الزامات اور دھمکیوں کو اجاگر کیا گیا ہے جن کا صحافیوں کو روزانہ کی بنیاد پر محض اپنا کام کرنے کے لیے سامنا کرنا پڑتا ہے۔