Get Alerts

مذہب کی جبری تبدیلی کے کیسز میں پولیس اور عدلیہ کا کردار تعصب پر مبنی ہوتا ہے: رپورٹ

مذہب کی جبری تبدیلی کے کیسز میں پولیس اور عدلیہ کا کردار تعصب پر مبنی ہوتا ہے: رپورٹ
نیشنل کمیشن آن دی رائٹس آف چائلڈ نے اسلام آباد میں اقلیتوں کے جبری مذہبی تبدیلی پر ایک پالیسی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذہب کی جبری تبدیلی کے کیسز میں پولیس اور عدلیہ کا کردار متعصبانہ ہوتا ہے۔
نیشنل کمیشن نے پیر کے روز اسلام آباد میں پاکستان میں اقلیتی آبادی کے مذہب کی جبری تبدیلی پر ایک رپورٹ جاری کی۔ اس میں بچوں کی جبری مذہبی تبدیلی کے کیسز کو اجاگر کیا گیا تھا۔
کمیشن نے مذہب کی جبری تبدیلی کا شکار آرزو کیس کی روشنی میں مسائل اور سفارشات کو اجاگر کیا۔ تقریب میں پاکستان میں یورپین یونین کی سفیر اندرولا کامینارا، اقلیتی کمیشن کے ممبر منظور مسیح اور پارلیمان میں اقلیتی ممبر قومی اسمبلی لال مالہی نے شرکت کی۔
رپورٹ کے مطابق پولیس مذہب کی جبری تبدیلی کے کیسز میں متعلقہ قانونی سیکشن ایف آئی آر میں نہیں ڈالتی جبکہ دوسری جانب مبینہ طور پر جبری مذہبی تبدیلی کے کیسز میں ملوث عناصر کے کہنے پر پولیس متاثرہ خاندان کے خلاف کراس ایف آئی آر درج کرتی ہے جس میں موقف اپنایا جاتا ہے کہ لڑکی نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیلی کی جبکہ ان کے خاندان والے ان کو دھمکا رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس مذہب کی جبری تبدیلیوں کے کیسز کی تحقیقات جان بوجھ کر نہیں کرتی۔ پولیس کی لاپرواہی کی بنیادی وجہ سوسائٹی میں اقلیتوں کے خلاف پائی جانے والا تعصب، عدم برداشت اور انتہا پسندی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پولیس ایف آئی آر درج کرنے میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے اور متاثرہ فریق کا بیان ریکارڈ نہیں کرتی۔ جب ایسے کیسز میں کوئی بااثر افراد ملوث ہوتے ہیں تو پھر پولیس افسران کیس کو دبانے کی کوشش کرکے ایف آئی آر درج نہیں کرتے۔
رپورٹ کے مطابق متاثرہ خاندانوں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ اغوا کاروں کے حق میں بیان دیں۔ جب ایسے کیسز عدالتوں میں چلے جاتے ہیں تو پھر وہاں درجنوں لوگ پہنچ جاتے ہیں اور ایسے نعرے لگتے ہیں جن کی وجہ سے عدالتوں پر دباؤ بڑھتا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جیسے سماج میں اقلیتوں کے خلاف متعصبانہ سوچ پائی جاتی ہے، اس طرح عدلیہ میں بھی ایسے سوچ کے لوگ ہیں جو اقلیتوں کے خلاف متعصبانہ سوچ رکھتے ہیں۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں یورپی یونین کی سفیر اندرولا کامینارا نے کہا کہ اس سال ہم یورپی یونین اور پاکستان کے 60 سالا تعلقات کا جشن منا رہے ہیں۔ پاکستان میں مذہب اور عقیدے کی آزادی یورپی یونین کے لئے انتہائی اہم ہے۔ مذہب اور عقیدے کی آزادی اور جبری طور پر مذہب کی تبدیلی کا جی ایس پی پلس سے بھی تعلق ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ بچپن میں شادی کا مسئلہ جبری طور پر مذہب کی تبدیلی سے پہلے دیکھنا چاہیے اور اقلیتیں جبری طور پر مذہب کی تبدیلی پر مسلسل آوازیں اٹھا رہی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جبری طور پر مذہب کی تبدیلی صرف ایک علاقے کا نہیں بلکہ ایک سماجی مسئلہ ہے اور یورپی یونین اس مسئلے پر غور کر رہی ہے کہ پاکستان میں یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو۔
پارلیمانی سیکرٹری برائے انسانی حقوق لال مالہی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سب سے زیادہ جبری طور پر مذہب تبدیل کرنے کے واقعات سندھ سے سامنے آتے ہیں۔ سندھ میں دو ایسے مدارس ہیں جہاں جبری طور پر مذہب تبدیل کرنے کے واقعات سب سے زیادہ ہیں۔
ان کے مطابق پارلیمانی کمیٹی نے جبری طور پر مذہب تبدیلی کا مسودہ تیار کیا جسے وزارت مذہبی کے پاس بھیج دیا گیا اور وزارت مذہبی امور نے مسودہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا جس نے اس پر 20 اعتراضات لگا کر بھیج دئیے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس ملک میں اسلامی نظریاتی کونسل آئینی طور پر تو نہیں لیکن معاشرتی اور سماجی طور پر بہت زیادہ مظبوط ہے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔