بھائی ہم بھی کتنے کم ظرف ہیں، کتنے ناہنجار ہیں، کتنے بے قدرے ہیں، اس کا ذکر جتنا کیجیے کم ہے۔ ہماری مملکت خداداد کو پروردگار نے ہیروں سے مالا مال کر رکھا ہے اور ہم ہیں کہ ان کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ ٹیلنٹ کی بھرمار ہے، صلاحیتوں کا بھنڈار لگا ہے اور ہم ہیں کہ ان کو صحیح جگہوں پر ان کا استعمال کر کے ان کی اصل صلاحیتوں سے فیض یاب ہونے سے قاصر ہیں۔
اب چئیرمین جناب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو ہی لیجیے۔ جناب کسی قطب نما سی نگاہ کے حامل ہیں اور کئی دفعہ بیان کر چکے ہیں کہ ان کو اس احتساب نامی بک بک خانے سے نکالا جائے۔ ان کی اصل منزل محکمہ موسمیات یا ماحولیات ہے۔ جناب کی نگاہ ہر لمحے ہواوں کے رخ پر رہتی ہے۔ اگر وہاں کام نہ بنے تو جناب کو بولی ووڈ ایکسپورٹ کر کے قیمتی زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔
اب دیکھیے نا، ایک ہمارے ہم مذہب وہاں عمران ہاشمی ہوا کرتے ہیں۔ موصوف نے وہاں کی دوشیزاوں پر اپنی بے تکلفی کے جو انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ یقیناً اب وہ بھی تھک ہار گئے ہوں گے۔ ایسے میں ہمارے چئیرمین صاحب جنہیں "سر تا پا" بوسے بازی کا وسیع تجربہ ہے، یقینا بھائی عمران ہاشمی کو کوڑیوں کے مول بیچ کھائیں۔ محترمہ کترینہ کیف اور دپیکا کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ دل تھام کر بیٹھیے یہ کیس نہیں فیس دیکھا کرتے ہیں تو ہوشیار باش۔
محمکہ ماحولیات محترمہ زرتاج گل کے ناتواں کاندھوں پر ہے۔ جن کی اصل گدی تو کسی خواتین کے ڈائجسٹ کی مدیرہ کی ہے۔ محترمہ کو ان ڈائجسٹوں میں چھپی کہانیوں کے ہیرو کی ہیرو پرستی اور مدح سرائی کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔ کچھ ہو جائے۔ بارش برسے، بدرا چھائے، دھواں آئے یا سوکھا ہو جائے، موصوفہ وہی کہیں جو پیا من بھائے۔ بات اوزون کی ہو یا پڑوسی ملک سے جاری کردہ سموگ کی، بحر اوقیانوس میں تلاطم ہو یا آسٹریلیا کے جنگلوں میں آگ۔ محترمہ کمال خوبصورتی سے موضوع کو اپنے قائد محترم والا خوبصورت یوٹرن دیتے، واپس ان ہی کے سٹائل اور انداز، حرکات و گفتار کی قصیدہ گوئی پر معاملات کو لے ہی آتی ہیں۔
حاسدین اور ناقدین کو کسی کل چین نہیں۔ اچھی بھلی ہماری حکومت ہے اور ہماری جان ازلی کرپٹوں سے چھڑوا چکی ہے۔ پر صاحب کوئی دن گزرے جو ان کی بے جا تنقید سے خالی ہو۔ خدا جانے انہیں کیا تکلیف ہے کہ اگر ہمارے معاشی ارسطو پہلے گندم کی برآمد کرتے ہیں اور پھر یہی نا شکرے ہاہاکار شروع کر دیتے ہیں۔ مجبوراً انہیں خاموش کرنے کی خاطر بے چاری حکومت گندم درآمد کرتی ہے، تو یہ سب ماتم کنائی سے باز نہیں آتے۔
خیبر پختونخوا سے ہمارے ہیرے جیسے وزیر، جناب شوکت یوسفزئی درست فرماتے ہیں کہ اول تو کوئی قلت ہے نہیں۔ بالفرض محال اگر کوئی قلت ہے بھی، تو ہر شے کا کوئی نہ کوئی متبادل ہے۔ ٹماٹر کی جگہ دہی استعمال کیجیے۔ آٹے کے پیڑے کو اگر ڈائیٹنگ کروا کر اس کے وزن کو تندور میں بھیجنے سے پہلے ہی اگر کم کر دیا جائے، تو خلق خدا کو موٹاپے سے بچایا جا سکتا ہے۔
ان ٹی وی والوں کو اللہ پوچھے، جنہیں ہمارے ہر دلعزیز ریلوے کے وزیر، جناب شیخ رشید احمد صاحب سے ریل کے بارے کوئی سوال کرتے کنواری دلہنیا والی لجا آتی ہے۔ مجبوراً موصوف کو دیگر موضوعات پر اپنی دانش کے موتی لٹانے پڑتے ہیں۔ درست تو کہہ رہے ہیں، جناب وزیر باتدبیر، نومبر اور دسمبر شادیوں کا سیزن کہلاتا ہے۔ عجب بھوکی قوم ہے جو دعوت میں کھانے کا اشارہ ملتے ہی قحط زدہ افراد کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور یوں آٹے کی قلت کی مستند اور جامع دلیل آپ کے سامنے ہے۔ شیخ صاحب ہماری سیاست کا وہ آئٹم نمبر ہیں، جسے ہر حال میں بجنا ہے۔ کیونکہ ان کے بغیر ماحول بالکل پھیکے کھانے سا لگتا ہے۔ جب تلک ان کے دہن مبارک سے پھلجڑیاں نہ چلیں، تو یوں سمجھیے دل کسی عارضے میں مبتلا رہتا ہے۔ دل ہے کہ بس مانگے مور ہی مور۔ اگر شیخ صاحب کی ذات با برکات کی بات ہو تو۔
ایک گستاخ خاتون نے جناب کے ساتھ اپنی ذاتی گفتگو کو منظر عام پر لانے کی گستاخی کرنے کی جسارت کی۔ اس کو علم نہ تھا کہ عوام الناس جن کی نمائندگی، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کیا کرتے ہیں، انہیں تو اس سے دلی مسرت ہوئی۔ نٹ کھٹ نند لال کی دلچسپی صنف نازک میں بھی ہوئی، یہ تو کوئی معیوب بات نہ ہوئی۔ حاسدین اور ناقدین تو ان پر صنف مشترک پر اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کے الزامات داغتے آئے ہیں۔ اگر ان الزامات میں حقیقت ہو بھی تو جناب کو سات خون معاف ہیں کیونکہ بقول ان کے ہی، وہ گیٹ نمبر چار کے مستند "پنڈی بوائے" ہیں، جن پر مہربانوں کا ازلی سایہ ہے۔
اب یہ ہمارے وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی جناب فواد چوہدری کا قصور تو نہیں کہ حکومت وقت انہیں پہلوانی میں اپنے جوہر دکھلانے کے مواقع فراہم نہیں کر رہی۔ مجبوراً موصوف کو شادیوں میں ہلکے پھلکے طمانچوں سے اپنی طبیعت کو بہلانا پڑتا ہے۔ جناب نے ایک عدد "چاند ایپ" متعارف کروائی کہ بھائی عیدین پر چاند کی رویت کے تنازعات ختم ہوں، پر مجال ہے کہ کسی نے جھوٹے منہ ہی شکریہ ادا کیا ہو۔ الٹا انہیں ہی لعن و طعن کی گئی۔ ایسی نا شکری قوم کا کیا کیجیے، کہ جو ان کی سائنس کی گراں قدر خدمات کو گھاس نہیں ڈالتی اور چھتوں پر چڑھ کر چاند دیکھنے کے بہانے روایتی آنکھ مٹکے اور کٹ بازی میں مصروف ہے۔ بے چارے اکھاڑے میں پہنچ نہ پائے تو کسی نے مشورہ دیا کہ بھائی آپ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے لیے موزوں رہیں گے۔ آپ میں وہ صلاحتیں بدرجہ اُتم موجود ہیں جو کہ وزیراعلیٰ کو درکار ہیں۔ لیکن صاحب ہزاروں خواہشوں کا کیا کیجیے، جب تلک مٹکا شریف میں حضور کے اسم کی پرچی نہ نکلے، تو اس خواہش کا گلا بھی گھونٹے بنا بات نہ بنے۔
یہ مت سمجھیے کہ طب کے میدان میں ہم کسی سے پیچھے ہیں۔ ہمارے پاس ڈاکٹر یاسمین راشد ہیں، جنہیں ذاتی صحت کی وجہ سے اس وزارت کا قلمدان غالباً سونپا گیا ہے۔ موصوفہ کی صلاحتیں قابل داد ہیں کہ سابق نااہل کردہ وزیراعظم بوجہ علاج لندن روانگی کی درخواست لے کر حکومت وقت کے پاس گئے اور محترمہ نے اعلی درجے کا بورڈ تشکیل دیا۔ ہانپتے کانپتے کیمروں کا سامنا کرتے محترمہ نے سب کو یقین دلوایا کہ جناب نواز شریف واقعی صاحب فراش ہیں اور ان کی بیماریوں کی لسٹ طویل ہے۔ ان کا بروقت علاج کے لیے ملک سے باہر چلے جانا ہی ایک درست قدم ہو گا۔ چند روز گزرے، اور ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ جس میں، نواز شریف صاحب انگریزی ریستوران میں ہریسہ تناول کرتے دکھائی کیا دے گئے کہ ڈاکٹر صاحبہ کا غصہ حق بجانب تھا۔ محترمہ بطور معالج، ان کی صحت کے لیے فکر مند تو تھیں ہی، لیکن اصل غصہ انہیں اس بات کا تھا کہ اگر ہریسہ ہی کھانا تھا، وہ بھی لندن جا کر تو ہم سے کہتے، ہم بنوا کر دیتے۔ سپیشل ہریسہ، قلچوں کے ساتھ، اور ساتھ میں گلابی کشمیری چائے بھی۔ ہمارے ہاں تو روز بنتا ہے، آپ کہاں کے خوش خوراک ٹھہرے صاحب۔
دوسری ہماری طب کی ماہرہ، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ہیں۔ جنہیں ہر حکومتی اقدام کے منفی اثرات کو زائل کرنے کے لیے عوام کو تسلی و تشفی کا چورن دینے پر معمور کیا گیا ہے۔ موصوفہ کے دلائل میں وزن کی کمی کو محترمہ کی تحکمانہ آواز سے پُر کیا جاسکتا ہے۔
مجسم انکسار اور سادگی کے پیکر وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار۔ اپنے پیشرو شوباز شریف سے یکسر مختلف۔ یہ نہ تو بارش میں لمبے جوتے پہن کر ٹی وی کے کیمروں کے جھرمٹ میں نکلتے ہیں اور نہ ہی چائنا کے تیار کردہ حبیب جالب کی مانند مجمعے پر اپنی شاعری آزماتے ہیں۔ اس حزب مخالف سے لے کر خود ان کی حکومت کے اراکین تاک لگائے بیٹھے ہیں کہ کس طرح ان کو چلتا کریں اور تخت لاہور پر قابض ہوجائیں۔ اگلے یہ نہیں جانتے کہ جناب کے گھر میں مٹکے میں نام نکلنے سے قبل بجلی تک نہ تھی۔ لالٹین جلا کر بچوں کو پال پوس رہے تھے۔ لکڑیاں کاٹ کر لاتے تو اہلیہ بنا گیس کے گھر میں ہانڈی روٹی کا بندوبست کرتیں۔ روز سائیکل پر اپنے ڈیرے آتے جاتے تھے۔ اب ایسے سادہ لوح بندے کو جو تربیت یافتہ بھی نہ ہو اور مؤکلین کے زیر سایہ ہو، بھلا اسے کون ہٹا سکتا ہے۔
موصوف کو اکثر اسی مٹکے سے ہم کلام ہوتے سنا جاسکتا ہے۔ ایک فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ جس میں آپ صاف ان کے اس مکالمے کو سن سکتے ہیں کہ "میرے پاس تم ہو"۔