پنجاب کا حکمران! سردار عثمان بزدار

پنجاب کا حکمران! سردار عثمان بزدار
اہل پنجاب کی بدقسمتی کہیے یا خوشی قسمتی، کافی سالوں کے بعد ترقی سے محروم علاقے کے فرزند نے تخت لاہور کی صدارت سنبھالی؛ مگر اپنا ڈنکا نہ منوا سکا۔

قصہ مختصر یہ کہ پنجاب جس کو آدھا پاکستان کہا جاتا ہے اس کی وزارت اعلیٰ ایسے شخص کو دی گئی جو کہ الیکشن سے چند ماہ پہلے ہی تبدیلی کے ساتھ آ ملے اور قسمت کا کھیل دیکھیے، وہی پنجاب کی پگڑی کا حقدار قرار پایا گویا یہ سب بنی گالہ کی مرضی کے مطابق ہوا۔

پنجاب کی سیاست مرکز کا تعین کرتی ہے، ہوا سازگار ہے یا اس میں مزاحمت کا عنصر پروان چڑھ رہا ہے۔ تبدیلی والوں کی کم عقلی کہیے یا نادانی اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہے پنجاب مضبوط ہو گا تو مرکز پر دباؤ کم ہو گا۔

موجود صورتحال انتہائی خراب ہے، سرکاری بابو کام کرنے کو تیار نہیں کیونکہ روزانہ تبدیلی کا پروانہ ہاتھ میں مل جاتا ہے، بیوروکریسی کبھی بھی اس کام میں ساتھ نہیں دیتی جب تک سرکار ساتھ نہ دے۔

لیکن! اس بات پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے آخر یہ سب عثمان بزدار کی قسمت میں تھا، آخر پاور سٹرکچر کیوں کمزور دیا گیا، اختیارات اسلام آباد کے پاس کیوں ہیں؟ وسیم اکرم پلس کے ساتھ کیوں ایسا سلوک کیا گیا؟

دوسرا المیہ؛ پنجاب میں حکومت کرنے والے گجرات کے چودھریوں اور تخت لاہور کے شریفوں سے مقابلہ، دونوں اپنے اپنے ادوار کے چمپیئن، سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر، سرکاری مشینری سے کام لینے کے ماہر گویا حکومت کیسے کی جاتی ہے اس کے داؤپیچ بخوبی جانتے تھے۔

حالات کا جائزہ لیا جائے تو وزراء اور ترجمانوں کی فوج جمع ہے، کام ایک دانہ نہیں مگر زبانی جمع خرچ میں ان لوگوں کا کوئی ثانی نہیں، اسلام آباد کے حکمران کے جانشین کا دفاع کرنا ان کی ذمہ داری ہے مگر وہ خود اپنے آپ کو نہیں سنبھال سکتے مجبوراً بنی گالہ سے دفاع میں دلائل آتے ہیں، لیکن اس میڈیا کا کیا کرے روز نا اہلی کی کوئی ایک نئی داستان لے آتا ہے۔

مگر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ سردار صاحب یا ان کو منتخب کرنے والے، سردار صاحب ان کے بقول وہ سیکھنے کے مرحلے میں ہے تو ان کے ساتھ نرمی برتی جائے، تو عوام کا کرنا ہے، یہ دعوے زمین و آسمان ایک کرنے کے، پنجاب کو کے پی کے بنانے کے خیر اللہ یہ نہ ہو۔

بات سیدھی سی ہے حکمران کو تبدیل کرو ورنہ بے جا تنقید سے کچھ فائدہ نہیں، عملیت پسندی سے کام لیا جائے تو کچھ ممکن ہے ورنہ خواب دیکھنے میں کوئی پابندی نہیں۔