صاحبان اقتدار! اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے، ملک کو بچا لیں

صاحبان اقتدار! اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے، ملک کو بچا لیں
آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے اور ہمارا آئین بھی اس کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستان میں آئین کو جوتوں تلے روندنے والوں نے اسے صرف کاغذ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ ایوب اور یحیٰی کے بارے میں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت موجودہ آئین معرض وجود میں نہیں آیا تھا لیکن ضیاءالحق اور پرویز مشرف دونوں نے خود کہا کہ آئین کیا چیز ہے صرف کاغذ کا ایک ٹکڑا؟  آئین کے ان غداروں سے کوئی پوچھے کہ اگر آئِین محض کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے تو آپ اس پر حلف کیوں اٹھاتے ہیں؟اسے قوم کی بدنصیبی ہی کہا جا سکتا ہے کہ آئین کو بوٹوں تلے روندنے والوں نے اس ملک کو اپنا راجواڑا سمجھ کردس دس سال حکومت کی اور قائد کے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔

یہ بات کون نہیں جانتا کہ ہر آمر کے دور میں پاکستان چھوٹا ہی ہوا ہے۔ ایوب خان کے نام نہاد دور میں ہم اپنے تین دریاؤں سے محروم ہوئے اور آج ملک کا ہر دریا پانی کی ایک بوند کو ترس رہا ہے، یحیٰی خان کے دور میں ذلت آمیز شکست کے بعد وطن عزیز کے ایک بازو سے محروم ہوئے تو ضیاء الحق کے دور میں سیاچین پلیٹ میں رکھ کر بھارت کو پیش کر دیا گیا۔ مشرف کے دور میں کارگل سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اور ۲۰۱۸ کے جھرلو انتخابات کے نتیجہ میں کشمیر بھی گنوا بیٹھے۔ کوئی ایک بہتری جو ان آئین کے غداروں کے دور میں آئی ہو تو صاحب فہم حضرات میری رہنمائی فرمائیں۔ اس کے علاوہ جو دیگر نقصانات ہوئے ان کا شمار ممکن ہی نہیں۔ قوم کو گروہوں، مسلکوں اور لسانی بنیاد پر تقسیم کر دیا اور یہی وجہ ہے کہ آج کوئی مالک گیر جماعت نہیں۔ ملک میں لوٹ مار کی کلیرنس سیل لگادی اور زمینوں پر قبضہ کئے جس سے دو چھوٹے صوبوں میں بغاوت جیسی صورتحال پیدا ہوئی اور آج یہ حال ہے کہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ بھی ان کی چیرہ دستیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔

قوم کو سوچنا ہوگا کہ کیوں ہم ایک بحران سے نکل نہیں پاتے کہ دوسرا بحران ہمیں گھیر لیتا ہے؟ بقول منیر نیازی ایک اور دریا کا سامنا تھا مجھ کو منیرمیں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا۔ ہماری تباہی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم جنہیں محافظ سمجھتے رہے وہ دراصل رہزن نکلے۔ جب تک آئین میں دی گئی دفعات کے تحت ان کو سزا نہیں دی جائِیگی مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ایوب، یحیٰی اور ضیاء اب دنیا میں نہیں رہے لیکن مشرف تو ہے۔ نواز شریف اور زرداری کے خلاف آئے دن نئے سے نئے کیس میں وارنٹ نکالنے والے ججز کو اگر مشرف کے وارنٹ نکالتے ہوئے ڈر لگتا ہے تو بہتر ہے کہ وہ منصف کا عہدہ چھوڑدیں۔

غداری کے مقدمات چلیں تو ہمارے وہ منصف بھی لپیٹے میں آئینگے جن کا نام لیتے ہوئے بھی کراہت محسوس ہوتی ہے۔ ہماری عدالتیں کیوں مشرف کے خلاف فیصلہ نہیں دیتیں کیونکہ ہمارے جج صاحبان کو خود بھی پھانسی کے پھندے پر جھولنے کا خوف ہے کیونکہ کہ غدار کا ساتھ دینے والا اور اسکی معاونت کرنے والا بھی آئین کی دفعہ ۶ کے تحت غدار ہی کہائیگا۔

اب اگر قوم کو آزادی چاہیئے تو اس کا واحد راستہ وہی ہے جو ایران اور ترکی کی عوام نے اختیار کیا۔ ظاہر ہے آزادی بغیر قربانی کے نہیں ملتی اور پی ڈیم ایم کی ریلیوں اور جلسوں میں عوام کے موڈ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اب قربانی دینے کو تیار ہیں۔ پی ڈی ایم کے قائدین کو بھی چاہیئے کہ مصلحت کا شکار ہونے کے بجائے اس موقع کو ضائع نہ جانے دیں ایسا نہ ہو کہ عوام ہر طرف سے مایوس ہو جائیں اور خود ہی انقلاب کا نعرہ لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئِیں ایسی صورت میں جو خرابی ہوگی اس کا تصور بھی محال ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کے غیض و غضب کو انتہا پر پہنچا دی ہے لہٰذا اب پوری قوم کو ساتھ لیکر اٹھیں اور پاکستان کو غاصبوں سے آزاد کرا لیں۔ یقیں رکھیں کہ دنیا کی کوئی طاقت عوام کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی اور یہ ہم ایران، ترکی کے علاوہ مشرقی پاکستان میں بھی دیکھ چکے ہیں۔

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔