آثار قدیمہ انسانی تہذیب اور قوموں کی پہچان ہوتے ہیں۔ وہ ہمیں قوموں کے ماضی سے آشنا کراتے ہیں۔ اسی طرح سندھ کے آثار قدیمہ جیسے موئن جودڑو اس کے شاندار ماضی کے عکاس ہیں۔
سندھ کے کئی قدیمی آثاروں میں سے ایک میرپورخاص میں واقع ہے جسے " کاہو جودڑو" (کاہو کا ٹیلہ) کہا جاتا ہے۔
کاہو جودڑو تقریباً ڈھائی ہزار سال قدیمی ورثہ ہے۔ یہ قدیم ترین ورثہ اس وقت دریافت ہوا جب 19ویں صدی میں میرپورخاص تا نوابشاہ ریلوی لائن بچھانے کے لئے کھدائی کی جا رہی تھی۔ جس کے بعد سر جان مارشل نے اس جگہ کی مزید کھدائی کرائی۔ اس آثار قدیمہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہاں پر کاہو نامی ہندو راجا کی حکومت تھی اور یہ شہر اس نے ہی تعمیر کرایا تھا۔ لیکن، مورخین نام کے اصل پر منقسم پائے جاتے ہیں۔
مصنف اور صحافی اختر حفیظ لکھتے ہیں کہ کئی صدیاں پہلے برصغیر بودھ مت کا گڑھ تھا۔ اس لئے اس علاقے میں اس وقت کے آثار ملنا فطری بات ہے۔ کاہو جودڑو کی کھدائی نے علاقے میں بودھ مت کی رسائی اور موجودگی کے بارے میں بیداری کو مزید تقویت بخشی۔
وہ محمد رمضان منہاس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں، " کاہو جودڑو کی کھدائی کا آغاز برطانوی دور میں جان مارشل نے کیا تھا۔ 1857 کی بغاوت کے بعد جان مارشل کو سندھ میں عارضی بنیادوں پر کمشنر مقرر کیا گیا۔ کھدائی نامکمل رہی۔ سائٹ کی کوئی مناسب دستاویزات نہیں ہیں۔ تاہم، سال 1909-10 میں تھرپارکرکے ایک ڈپٹی کمشنر میکنزی نے کھدائی کے لئے محکمہ آثار قدیمہ کو کچھ خطوط لکھے۔
محکمہ کے سروے سپرنٹنڈنٹ ہنری کزنز کھدائی کے لئے پہنچے اور ایک بودھ مت کا مندر دریافت کیا جسے ٹاور یا اسٹوپا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کھدائی کے بعد لوگوں نے کاہو جودڑو کا رخ کرنا شروع کر دیا۔
ہنری کزن اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ یہ جگہ 40 ایکڑ پر پھیلی ہوئی تھی جہاں انہوں نے ٹیلے اور بنجر زمین دیکھی۔ گرتی ہوئی عمارت کی کھدائی کے بعد اسے بودھ مت کی عبادت گاہ ملی جس کی لمبائی تقریباً 53 مربع فٹ تھی۔
دیواروں کو پھولوں سے سجایا گیا تھا اور درمیان میں ایک بڑا دروازہ تھا۔ مجسمے اور تصویریں عبادت گاہ کے محراب سے ملی ہیں۔ تمام مورتیاں مٹی سے بنی تھیں اور آگ میں پکی ہوئی تھیں۔ قدیم زمانے میں لوگ بدھ کے مجسمے بناتے تھے، جنہیں آگ میں پکایا جاتا تھا اور ہاتھ سے پینٹ کیا جاتا تھا۔ جب اس عمارت کی مغرب کی طرف سے کھدائی کی گئی تو کبیر کا مجسمہ بھی ملا اور ایک کنواں بھی نظر آیا۔ جب کنواں کھولا گیا تو ایک بوتل جس میں سونے سے ڈھکی ہوئی موم بتی اور راکھ ملی۔
ہنری کزن کے مطابق یہ راکھ گوتم بدھ کی تھی۔ انہیں مقدس آثار یا نعمت کے طور پر محفوظ کیا گیا تھا۔ گوتم بودھ کا تعلق شاکیمونی قبیلے سے تھا۔ یہ ایک رسم تھی کہ جب کوئی اہم شخص مر جاتا تھا تو شاکیمونی ان کے جسم کو جلا دیتے تھے اور ایک سمادھی (درگاہ) بناتے تھے جہاں مرنے والوں کی راکھ رکھی جاتی تھی۔ بودھ کے انتقال کے بعد ان کی راکھ کو آٹھ حصوں میں تقسیم کر کے مختلف علاقوں میں دفن کیا گیا، جہاں لوگوں نے مندر اور سمادھیاں بنائیں"۔
پروین تالپور ایک مصنفہ، مورخ اور ماہر آثار قدیمہ ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ صوبہ سندھ کے گزٹیئر (1907) میں ایک چھوٹی آبپاشی نہر کاہو واہ کا ذکر ہے، جو میرپور خاص سے 65 میل کے فاصلے پر بہتی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک کاہو بازار تھا (میرپورخاص میں کاہو نامی بازار آج بھی موجود ہے) جس کے آس پاس 1806 میں میر علی مراد تالپور نے میرپور خاص شہر کی بنیاد رکھی۔
وہ لکھتی ہیں کہ بازار کا وجود بتاتا ہے کہ کاہو جو دڑو صرف ایک دور افتادہ خانقاہ ہی نہیں تھا بلکہ ایک بڑا شہر بھی تھا۔ ہیوین سانگ ایک معروف چینی راہب، جس نے 711 عیسوی میں عرب مسلمانوں کی فتح سے تقریباً ایک صدی قبل سندھ کا دورہ کیا، سینکڑوں بودھ خانقاہوں کے بارے میں لکھتے ہیں جو سندھ میں پروان چڑھی تھیں۔ پروین تالپور کے مطابق تاریخ بتاتی ہے کہ مقدس مقامات کے ایسے نیٹ ورک کو چلانے کے لئے زیادہ تر سرمایہ تاجر اور کاریگر طبقے سے آتا تھا جو زیادہ تر بودھ مت تھے۔ یہ قدیم تجارتی راستے اپرانتا پاتھا کے قریب واقع ہے جو بلوچستان کے بولان پاس سے جنوبی ہندوستان کے سرے پر کنیا کماری تک پھیلا ہوا تھا۔ کاہو بازار ضرور ایک مصروف جگہ رہی ہوگی، جہاں راہب اور تاجر شہر کے لوگوں کے ساتھ گھل مل گئے تھے۔
وہ لکھتی ہیں کہ یہ بتانے کے لئے کافی شواہد موجود ہیں کہ مسلمانوں کی فتح کے بعد بھی یہ ایک پرامن شہر رہا کیونکہ راہب اپنا حج ٹیکس وصول کرتے رہے جبکہ تاجر بطور ذمی (غیر مسلم) ٹیکس ادا کرتے تھے۔
کاہو جودڑو کی کھدائی کے دوران تقریباً گیارہ مورتیاں (جس میں سے سات مورتیاں محفوظ کی جا سکیں)، اس کے علاوہ سکے، برتن، پکی اینٹیں اور دیگر سامان بھی ملا جو کہ ممبئی کے چتراپتی شیواجی مہاراج میوزیم میں آج بھی موجود ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ممبئی کے چتراپتی شیواجی مہاراج میوزیم میں کاہو جودڑو سے ملی ہوئی تقریباً 297 باقیات موجود ہیں۔ 2022 میں ان پر تحقیق کر کہ دستاویزی شکل دی جائے گی۔ تحقیقی نتائج 2023 میں شایع کئے جائیں گے۔
میوزیم کے ڈائریکٹر سبیاساچی مکھرجی کا کہنا ہے کہ 1909-10 میں یہ باقیات ہنری کزنس نے یہاں رکھوائیں۔ کاہو جودڑو سی نکلی اینٹوں کی بناوٹ سے ماہرین اندازہ لگاتے ہیں کہ اس اسٹوپا کا اصل ڈھانچہ شہنشاہ اشوک کے موریہ دور میں بنایا گیا ہوگا۔
ایک مقامی پروفیسر نثار جان کے مطابق یہ ایک بدھ اسٹوپا تھا جو مہاراجا اشوک نے تقریباً 232 قبل مسیح کے آس پاس تعمیر کرایا تھا۔
ایک اور مقامی پروفیسر مراد علی کے مطابق ہاکڑو دریا جو کہ کسی دور میں میرپور خاص کے ساتھ ساتھ بہتا تھا، اس کے کنارے پر کسی زمانے میں یہ بہت بڑا آباد شہر تھا۔
کاہو جو دڑو کو دیکھ کر یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی دور میں یہاں بہت بڑا خوبصورت شہر آباد تھا لیکن یہ برباد کیسے ہوا اس کا کوئی سراغ نہیں ہے۔
1947 تک اس قدیمی اور تاریخی ورثے کی حفاظت کی گئی۔ اس تاریخی ورثے کی تباہی تب شروع ہوئی جب 1980 میں میرپورخاص میں کالونیاں بننا شروع ہوئیں اور یہاں سے مٹی نکالنا شروع کی گئی۔ اب کاہو جودڑو کے آدھے سے زائد حصے پر قبضہ ہے اور لوگ آکر یہاں آباد ہو چکے ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری جب چیف جسٹس تھے تب انہوں نے اس مقام کا دورہ کرتے ہوئے، اس پر قبضے کا نوٹس لیا اور اس کی حفاظت کے لئے حکم جاری کیا تھا لیکن اس کے بعد انتظامیہ کی طرف اس کی حفاظت کے لئے کوئی خاص اقدام نہیں لئے گئے۔
حکومت سندھ نے اب اس تاریخی جگہ کے اطراف خاردار تار ضرور لگوائی ہے لیکن یے کافی نہیں۔ ورثے کا تحفظ مستقبل کو فروغ دینا اور بہتر سے بہترین بنانا ہوتا ہے۔ اس تاریخی مقام پر آج تک کوئی خاص تحقیقی کام نہیں ہو سکا۔ حکومت سندھ کو چاہیے کہ اس تاریخی مقام کو مزید دریافت کرے۔ آثار قدیمہ کی ماہرین سے مدد حاصل کرے۔ اس تاریخی ورثے پر تحقیقی کام کی اشد ضرورت ہے۔