پاکستان میں گیس بحران مزید سنگین ہوگیا ہے۔ ایس ایس جی ایل کے بعد اب ایس این جی پی ایل نے بھی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں گیس کی سپلائی منقطع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ایس این جی پی ایل کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیاہے کہ ڈرائی ڈاکنگ کی وجہ سے آر ایل این جی ری گیسیفکیشن ٹرمینل پر گیس کی سپلائی کی ترسیل کا عمل رک گیا ہے جس کے باعث اب سیمنٹ، سی این جی اور مخصوص (نان ایکسپورٹ) صنعتوں کو گیس کی سپلائی آج رات سے بند کردی جائے گی۔ جبکہ یہ بندش 5 جولائی تک جاری رہے گی۔
سندھ میں بھی گیس کی بندش
سندھ بھر میں 9 جولائی تک سی این جی اسٹیشن بند رکھنے کا فیصلہ گیا ہے۔ سندھ بھر میں بھی 9 جولائی تک سی این جی اسٹیشن بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق سندھ بھر میں 9 جولائی تک سی این جی اسٹیشن بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ سندھ میں سی این جی اسٹیشن 22 جون سے بند ہیں۔سی این جی ایسوسی ایشن کے مطابق گیس اسٹیشنز کل صبح 8 بجے کھلنا تھے۔
سٹیک ہولڈرز کا رد عمل
اس معاملے پر سی این جی ایسو سی ایشن کے صدر غیاث پراچہ کا کہنا ہے کہ سی این جی کی اچانک بندش کاروبار کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ گرمیوں میں بھی سی این جی کے لیے گیس دستیاب نہ ہونا بد ترین گورننس کی نشانی ہے۔ ایف پی سی سی آئی کے صدر ناصر حیات مگوں نے کہا کہ ملک بھر میں گیس 29 جون سے ایک ہفتے کے لئے گیس بند کی جا رہی ہے جو ناقابل قبول ہے۔اس سے کاروباری برادری اور عوام کو بھاری نقصان ہو گا روزگار متاثر ہوگا جبکہ پیداوار اور برامدات گر جائیں گی۔ایف پی سی سی آئی کے صدر ناصر حیات مگوں نے یہاں ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سارا ملک توانائی بحران کی لپیٹ میں ہے جس کی وجہ بروقت ایل این جی نہ منگوانا، سی این جی شعبہ کو اپنی گیس کی درامد میں سالہا سال سے رکاوٹیں ڈالنااورگیس فیلڈز اور ایل این جی ٹرمینل کی مرمت کے لئے غلط وقت کا انتخاب ہے۔
اب فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو مہنگا آپشن ہے۔ حکومت نہ تو خود گیس درامد کرتی ہے نہ ہی سی این جی سیکٹر کو درامد کرنے دیتی ہے جو حیران کن ہے۔اس موقع پر آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے گروپ لیڈر غیاث عبداللہ پراچہ نے کہا کہ توانائی کے شعبہ کی پالیسیاں زمینی حقائق کے مطابق نہیں۔ جب تک سی این جی سیکٹر کو اپنی گیس درامد کرنے کی نہیں دی جائے گی بحران آتے رہیں گے۔سوئی کمپنیاں لوگوں کاکاروبار تباہ اور روزگار چھین رہی ہیں۔ہم اپنی گیس خود درامد کریں تو لوڈ شیڈنگ ختم اور حکومت کو بیاسی ارب روپے کا فائدہ ہو گا مگر یہ چند بیوروکریٹس کو قبول نہیں۔
پنجاب اور سندھ میں سی این جی سیکٹر درامد شدہ گیس استعمال کر رہا ہے اس لئے گیس کی مقامی پیداوار میں کمی سے اسکا کوئی تعلق ہے نہ اسکی گیس منقطع کرنے کو کوئی جواز۔آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے چئیرمین خالد لطیف نے کہا کہ سی این جی سیکٹر میں چار سو پچاس ارب کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے مگر اسکامستقبل مخدوش ہے۔
سی این جی سیکٹر سے لاکھوں افراد کا روزگار جڑا ہوا ہے مگر اسے تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔ حکومت اس شعبہ کی بحالی کے لئے اقدامات کرے جس میں سرفہرست اضافی ٹیکس لگانے کے فیصلے کو منسوخ کرکے عوام کیلئے ماحول دوست اور سستے ایندھن کی دستیابی یقینی بنانا ہے تاکہ آلودگی اور کرائے نہ بڑھیں اور لاکھوں افراد کا روزگار بچایا جا سکے۔