اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے

حالیہ واقعہ میں بھی مذہبی جذبات سے پُرجوش مشتعل ہجوم نے پولیس تحقیقات اورعدالتی کارروائی کا انتظار کیے بغیر ہی 'فیصلہ' کر ڈالا۔ گذشتہ تین دہائیوں میں ایسے ہجومی فیصلوں کا نشانہ بننے والوں میں پروفیسرز، اساتذہ، سیاست دان، طالب علم، مذہبی رہنما، ذہنی و جسمانی معذورافراد، غیر ملکی اور مختلف عقائد کے شہری شامل ہیں۔

اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے

دل بہت رنجیدہ ہے۔ دماغ میں ٹھہر ٹھہر کے مختلف قسم کے وسوسے جنم لے رہے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ دل چاہتا ہے جو اس وقت گزر رہی ہے وہ سب کی سب لکھ ڈالوں، البتہ دماغ کا حکم اس کے برخلاف ہے، بس ملی جُلی سی کیفیت کا سامنا ہے۔

ایسی افسردگی پہلی بار تھوڑی ہوئی ہے۔ ہمیں تو تین دہائیاں بیت گئی ہیں یہ سہتے سہتے، فقط اس اُمید پر کہ اب کی بار سماج میں بہتری آ جائے گی۔ کچھ رواداری آ جائے گی، بس اب آئندہ ایسا نہیں ہو گا، احترامِ انسانیت جاگ جائے گی، ہم انسانی زندگی اور انسانی وقار کو معتبر سمجھنے لگیں گے۔ عوام قانون نافذ کرنے والے اور انصاف کے اداروں پر اعتماد کریں گے۔ مگر ایسی اُمید رونما ہونے والے ہر نئے واقعہ میں مظلوم کی جان نکلنے کے ساتھ ہی دم توڑ جاتی ہے۔

اگنی اور خون کی یہ کہانی اب سوات پہنچ چکی ہے۔ سیالکوٹیوں نے سری لنکن پہ رحم نہیں کیا اور سواتیوں نے سیالکوٹی کو اُسی طرز پر جلا کا راکھ کر ڈالا۔ انتہائی قابلِ افسوس واقعہ ہے یہ۔

بس پلیز اب بس کر دو۔ انبیاء کرام اور مقدس صحائف کا احترام سر آنکھوں پر مگر یاد رہے جس نے ایک انسان کا قتل کیا اُس نے گویا پوری انسانیت کا قتل کیا۔

ہزاروں افراد پر مقدمات، ایک سو کے قریب افراد کا ماورائے عدالت قتل، سینکڑوں گھر نذرِ آتش، عبادت گاہوں میں توڑ پھوڑ اور بے حرمتی کے ساتھ ساتھ خاندانوں کے خاندان تباہ ہو چکے اور درجنوں افراد مجبوراً جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

نوجوانوں کو سمجھنا ہو گا کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی بجائے قانون کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں۔ مذہبی حوصلے اور رواداری کا مظاہرہ کیا جائے۔ معاشرے کو کسی دائرہ و دستور اور قانون کے تابع لایا جائے۔

زہرا نگاہ نے کہا تھا، 'سُنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے'۔۔

انہوں نے اس نظم کے اختتام پر ایسی دعا مانگی جس میں آج ہی کی طرح کے حالات، مایوسی اور رنجیدگی نمایاں نظر آتی ہے۔ ہم بھی آج اُن کے ساتھ ہم آواز ہو کے اُس دعا میں شامل ہیں۔ انہوں نے فرمایا تھا؛

خُداوندا! جلیل و معتبر! دانا و بینا منصف و اکبر!

مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر!

ہمارے ہاں انسانی زندگی اور رشتوں کی اب کوئی قدر و وقعت نہیں رہی۔ معاشرہ مجموعی طور پر زوال اور تشدد کی نذر ہوتا جا رہا ہے۔ انتہا کی بے حسی چھائی ہوئی ہے۔ بیگانے پن کا وہ عالم ہے کہ خدا کی پناہ ہے۔ عباس تابش نے غالباً اِسی آتش و خوں کے کھیل کے باوجود ایک اُمید جگائے رکھی اور فرمایا؛ 'اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے'۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

دل دُکھا ہوا ہے۔ سوات میں قتل ہونے والے سیالکوٹ کے شہری کے خاندان کے ساتھ ہمدردی ہے۔ انسان کسی دوسرے انسان کے ساتھ ایسا سلوک بھی کر سکتے ہیں، یہ سوچ کے دل پھٹا جاتا ہے۔ اُس کا قتل ماورائے عدالت مقتولین کی فہرست میں صرف ایک اضافہ ہی نہیں بلکہ سماج سے عدم رواداری کے خاتمے، مذہبی انتہا پسندی کی روک تھام اور انسانی تکریم کے فروغ کی آواز و مطالبہ بھی ہے۔ سچ میں اب بس فل سٹاپ لگا دو۔ اگر سرگودھا کے نذیر مسیح پر نہیں تو سوات میں نذرِ آتش کیے جانے والے سیالکوٹ کے محمد اسماعیل پر ہی عدم برداشت کا اختتام ہو جانا چاہیے۔ امن، ہمدردی اور انصاف کے مراحل کو جگہ دی جانی چاہیے۔

حالیہ واقعہ میں بھی مذہبی جذبات سے پُرجوش مشتعل ہجوم نے پولیس تحقیقات اورعدالتی کارروائی کا انتظار کیے بغیر ہی 'فیصلہ' کر ڈالا۔ گذشتہ تین دہائیوں میں ایسے ہجومی فیصلوں کا نشانہ بننے والوں میں پروفیسرز، اساتذہ، سیاست دان، طالب علم، مذہبی رہنما، ذہنی و جسمانی معذورافراد، غیر ملکی اور مختلف عقائد کے شہری شامل ہیں۔

ہجومی فیصلوں نے افراد کی زندگیوں کی رنگینی تو تہس نہس کی ہی ہے، خاندانوں کے خاندان بھی اُجاڑ کے رکھ دیے ہیں۔ اس صورت حال نے معاشرے کو بھی مجموعی طور ہر بے تحاشا نقصان پہنچایا ہے۔ ایسے رویوں اور واقعات نے معاشرے میں برداشت، تحمل، مکالمہ، تحقیق، رواداری، قبولیت اورمخالف نقطہ نظر کو سُننے کے رحجان کا خاتمہ کر ڈالا ہے۔ رویوں میں ناصرف سختی اور تشدد کا عنصر بڑھ گیا ہے، بلکہ مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کی آوازوں کو بھی دبا دیا گیا ہے اور نوجوان نسل قانون کی حکمرانی اور نظامِ عدل سے منہ پھیر کر قانون ہاتھ میں لینے کو ترجیح دے رہی ہے۔

راقم انسانی حقوق، انسانی تکریم اور انسانی وقار کا کارکن ہونے کے ناطے اب بھی اُمید جگائے بیٹھا ہے کہ دن سنورنے والے ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کی کوششیں ضرور رنگ لائیں گی۔ فیض احمد فیض کی زبانی کہ

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے

جو لوحِ ازل میں لکھا ہے

جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں

روئی کی طرح اڑ جائیں گے

لیکن فکر فقط یہ ہے کہ تب تک بہت دیر نہ ہو جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مکاتبِ فکر کی مذہبی قیادت، سیاسی کارکنوں، انصاف اور قانون کے ماہرین اور سماجی خدمات سرانجام دینے والوں کو یہ گھر مزید جلنے سے بچانے کے لئے ہنگامی طور پر مشترکہ لائحہ عمل پر سوچنا ہو گا۔

اس صورت حال سے نمٹنے اور ہجومی انصاف کی روک تھام کی سنجیدہ کوششیں ضروری ہیں۔ اس آگ پر قابو پانا ہو گا۔ تابش کے ہمراہ اُمید واثق رکھی جا سکتی ہے کہ 'اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے'، بلکہ اب تو یہ جلتا شہر بچانا ہی پڑے گا ورنہ سب کچھ راکھ ہو جائے گا۔