عوام فرضی بین الاقوامی سازشوں اور ہمسایوں سے نفرت پر مبنی بیانیے سے تنگ آ چکی ہے
عسکری اسٹیبلشمنٹ کو اس امر کے ادراک کی ازحد ضرورت ہے کہ اب عوام کی ایک کثیر تعداد فرضی بین الاقوامی سازشوں اور ہمسایوں سے نفرت پر مبنی بیانئے سے تنگ آ چکی ہے۔ وہ قومی وقار اور غیرت جس کے نام پر ہماری دفاعی اشرافیہ کئی دہائیوں سے ملک کے سیاہ و سفید کی مالک بنی بیٹھی تھی اس پر اب عوام الناس سوالات اٹھاتی ہے اور 1965 اور 1971 کی جنگوں کو مطالعہ پاکستان کی روشنی میں ہماری جیتی ہوئی جنگ یا دشمن کی سازش نہیں سمجھتی۔ اسی طرح فوج کے کاروباری معاملات اب ہر ذی شعور شخص کو کھٹکھتے ہیں. بڑے بڑے شہروں میں ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا جال اور فارم ہاؤسز دیکھ دیکھ کر ایک عام آدمی اب کڑھتا ہے کہ سرحدوں کہ حفاظت کرنے والے کیونکر کاروبار اور پراپرٹی ڈیلنگ کے کام میں مصروف ہیں۔
کمیٹی بنائیں مگر اس وجہ سے نہیں
اسد درانی کے انکشافات پر انکوائری بٹھانے کی بجائے ہماری عسکری اسٹیبلشمنٹ کو گذشتہ ستر برسوں کے دوران کیے گئے غلط فیصلوں اور ان کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلئے ایک انکوائری کمیٹی یا کمیشن بنانے کی ضرورت ہے۔ اس انکوائری کمیٹی یا کمیشن میں ملک میں آمریت لانے والے جرنیلوں، سیاسی معاملات میں فوج کی دخل اندازی کرنے والے افسران، ملک کو افغان جہاد اور بعد میں عالمی طاقتوں کے ایما پر اففانستان کی گریٹ گیم کا حصہ بننانے والے، سقوط ڈھاکہ کے مجرم، ایم کیو ایم کی سرپرستی، طالبان، لشکر طیبہ اور لشکر جھنگوی جیسی شدت پسند تنظیموں کو جنم دینے والے، سانحہ اوجڑی کیمپ، سانحہ ایبٹ آباد، سانحہ آرمی پبلک سکول اور منتخب حکومتوں کے خلاف پس پردہ سازشوں کے ذمہ دار افراد کے ناموں کو منظر عام پر لانے کے ساتھ ساتھ ان واقعات کے عوامل اور محرکات ہر مبنی ایک رپورٹ بھی منظر عام پر لانی چاہیے۔ وطن عزیز کو فلاحی ریاست سے دفاعی اور سکیورٹی سٹیٹ میں کس نے کب اور کیوں بدلا اس کی وجوہات بھی سامنے لانے کی اشد ضرورت ہے۔
یہ نہیں ہو سکتا کہ ریاست کی پالیسیاں اور بیانیے اسٹیبلشمنٹ ترتیب دے، منتخب حکومتوں کو کٹھ پتلی بناتے ہوئے پردے کے پیچھے سے حکومتی امور پر بھی اثر انداز ہو اور بدلے میں ناکامیوں کا سارا ملبہ منتخب نمائندوں پر ڈالتے ہوئے خود پر تنقید کو غداری اور ملک دشمنی قرار دے۔
جو پالیسی بنائے گا، وہی تنقید بھی برداشت کرے
ہماری عسکری اسٹیبلشمنٹ کو اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ خارجہ پالیسی اور دفاعی بیانیے پر چونکہ ان کی بلا شرکت غیرے اجارہ اداری ہے اور امور حکومت یا حکومتیں چلانے میں زیادہ تر کردار بھی انہی کا ہوتا ہے اس لئے جہاں جہاں بطور ریاست ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں، ان کی ذمہ داری کا تعین کرنا پڑے گا۔ اسی طرح ریاستی امور پر تسلط کی وجہ سے عسکری اداروں کو تنقید بھی برداشت پڑنا کرے گی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ریاست کی پالیسیاں اور بیانیے اسٹیبلشمنٹ ترتیب دے، منتخب حکومتوں کو کٹھ پتلی بناتے ہوئے پردے کے پیچھے سے حکومتی امور پر بھی اثر انداز ہو اور بدلے میں ناکامیوں کا سارا ملبہ منتخب نمائندوں پر ڈالتے ہوئے خود پر تنقید کو غداری اور ملک دشمنی قرار دے۔ جب آپ امور ریاست کو خود چلائیں گے اور ریاستی بیانیوں کی تخلیق اور تشریحات بھی خود کریں گے تو ریاست کی ناکامیوں کی ذمہ داری کا بوجھ بھی آپ کو اٹھانا پڑے گا۔
دی سپائی کرانیکلز جیسی کتابوں سے قومی وقار کو ٹھیس نہیں پہنچے گی اگر
ریاست کی تاریخ کو جھوٹ سے مسخ کرنے کی ریت اگر ترک کر دی جائے اور بیانیوں اور پالیسیوں میں منتخب حکومتوں کے کردار کو بالاتر سمجھتے ہوئے یہ ذمہ داری ان پر ہی چھوڑ دی جائے تو پھر دی سپائی کرانیکلز جیسی کتابوں سے نہ تو ہمارے قومی وقار کو ٹھیس پہنچے گی اور نہ ہی کسی ادارے کو سبکی یا شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عسکری اسٹیبلشمنٹ کو اس حقیقت کو کبھی نہ کبھی تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ نہ تو وہ عقل کل ہے اور نہ ہی اسے کسی پاکستانی شہری کو حب الوطنی یا محض اختلاف رائے کی بنیاد پر غدار قرار دینے کا کوئی حق ہے۔ جنرل اسد درانی کی کتاب کو لیکر جس طریقے سے اسٹیبلشمنٹ کے حامی مخصوص ٹی وی اینکرز اور تجزیہ نگاروں سے کتاب کے متعلق پراپیگینڈا کروایا گیا، اس کے باعث نہ صرف کتاب کو مزید مقبولیت ملی بلکہ وہ افراد جو پڑھنے سے شغف نہیں رکھتے، ان تک بھی کتاب کے حقائق اور معلومات پہنچ گئے۔ اس کے بعد جنرل درانی کی جنرل ہیڈ کوارٹرز طلبی اور انکوائری نے بھی عسکری اسٹیبلشمنٹ کو 'ڈیمیج کنٹرول' میں کوئی خاص مدد نہیں فراہم کی۔
کتاب میں قومی سلامتی کے راز افشا کیے ہیں تو پھر ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے دوران کیا کرتے ہوں گے؟
اسد درانی عسکری ایسٹیبلیشمنٹ کی ایما پر مختلف ممالک کے ساتھ ٹریک ٹو ڈپلومیسی میں پیش پیش رہے ہیں. ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر اسد درانی نے کتاب میں کوئی اہم قومی سلامتی کے راز افشا کیے ہیں تو پھر ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے دوران وہ کیا کچھ راز غیر ممالک کے اعلیٰ حکام کو فراہم نہیں کرتے ہوں گے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں اسد درانی پر انکوائری شروع کر کے ہم نے خود اپنے لئے مشکل کھڑی کر لی ہے۔ ایک طرف اسد درانی کے بتائے گئے حقائق کو جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا کہ وہ شواہد کے مطابق بالکل درست ہیں اور دوسری جانب انہیں درست تسلیم کر کے حب الوطنی کی نرگسیت کا شکار آبادی کے غم و غصے کو سہنے کا خطرہ بھی مول نہیں لیا جا سکتا۔
یہ راز، راز تھا ہی نہیں
اسد درانی نے اپنی کتاب میں کسی قسم کا کوئی قومی سلامتی کا راز افشا نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے مختلف ادوار میں نجی حیثیت میں چند زمہ داران کے غلط فیصلوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنے دفاعی بیانیے کی ترجیحات درست سمت میں متعین کرنے پر زور دیا ہے۔ شائد اسد درانی نے ہماری عسکری اسٹیبلشمنٹ کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے پالیسیوں اور بیانیوں کو درست کیا جائے۔
اب نہیں تو آخر کب؟
اگر اب بھی خود اپنی غلطیاں درست کرنے اور ستر برس پر مشتمل غلط ترجیحات کو درست کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھانے اور ایک ٹرتھ اور ری کنسیلئیشن کمیشن قائم کرنے کے بجائے حقائق و واقعات کو منظر عام پر لانے اور غلطیوں کی نشاندہی کرنے والوں کو دشمن تصور کرتے ہوئے انہیں انکوائریوں یا میڈیا ٹرائل کا نشانہ بنایا جائے گا تو پھر شائد اگلے ستر برس بھی ہم آگے کا سفر کرنے کی بجائے دائروں میں ہی گھومتے چلے جائیں گے اور دنیا بھر میں ہمارے بیانیوں کو جھوٹ ہی تسلیم کیا جاتا رہے گا۔
چونکہ وطن عزیز میں اصل طاقت اور اختیارات کی مالک دفاعی اسٹیبلشمنٹ ہے، اس لئے اپنا مستقبل روشن بنانے کیلئے ہماری دفاعی اسٹیبلشمنٹ کو اسد درانی یا دیگر تنقید کرنے والے حضرات کے خلاف انکوائریاں بٹھانے کی بجائے گذشتہ ستر برس کے دوران تشکیل دیے گئے بیانیوں اور پالیسیوں کے متعلق ایک انکوائری کمیشن بنا کر اس کے حقائق کو عوام الناس تک پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔