پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے محض ایک روز قبل فیصل واؤڈا کی جانب سے دھواں دھار پریس کانفرنس کیے جانے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ ان کا جماعت کے ساتھ اختلاف بھی ہو سکتا ہے یا پھر ان کے اندر ارشد شریف کے ساتھ زیادتی ہونے اور اس پر سیاست کرنے پر اعتراض بھی ہو سکتا ہے یا پھر جیسے تحریک انصاف کہ رہی ہے اسے حقیقی آزادی مارچ کو متاثر کرنے کی کوشش بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
اس بات میں بھی وزن ہے کہ فیصل واؤڈا کا ارشد شریف سے ایک ذاتی تعلق تھا اور اس کانفرنس کے پیچھے ہمدردی اور وفا کا جذبہ بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ وہ بہت سارے حقائق سے واقف تھے کہ ارشد شریف نے کس طرح ایک خاص بیانیے پر کام کیا اور ارشد شریف کے کئی اور ساتھیوں کا خیال ہے کہ ان کے ساتھ مشکل وقت میں فائدہ اٹھانے والوں کا رویہ مناسب نہیں رہا۔ ارشد شریف اپنے مؤقف پر ڈٹے اس لیے رہے کہ انہیں خود کے استعمال کیے جانے پر غصہ تھا۔ اُس وقت تو انہوں نے اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کو مناسب نہیں سمجھا لیکن اب ان کی واپسی کی خبروں کی تصدیق ہو رہی ہے کہ ان کے بول ٹی وی کے ساتھ معاملات طے پا چکے تھے جس سے ان کو استعمال کر کے فائدہ حاصل کرنے والوں کو بھی خطرہ محسوس ہو رہا ہوگا کہ کہیں ان کی داستانیں بھی منظر عام پر نہ آجائیں۔
دونوں اطراف سے تابڑ توڑ حملے جاری ہیں اور اگر ان خدشات، الزامات اور حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے جائزہ لیں تو چند نکات بہت واضح نظر آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ فیصل واؤڈا کی کانفرنس کو جس طرح سے میڈیا پر کوریج ملی اس سے اس کے ساتھ مدد یا ہمدردیوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا جو حکومت کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بھی جو کوئی عجیب بات نہیں کیوںکہ اگر کوئی بھی اس طرح سے اپنی جماعت سے اختلاف پر اترتے ہوئے میدان میں کودے تو اس کو امدادی ہاتھ مل ہی جاتے ہیں۔ آج ہی اگر کوئی مسلم لیگ (ن) سے اس طرح کی پریس کانفرنس کرنے کی کوشش کرے تو اس کو بھی ہمدردیوں اور مدد کی کوئی کمی نہیں رہے گی۔ ہاں البتہ اسٹیبلشمنٹ پر تحریک انصاف کی طرف سے الزامات سے اس بات کی تصدیق ضرور ہوتی ہے کہ وہ نیوٹرل ہیں۔ اس بات پر خود تحریک انصاف بھی گواہیاں دیتے نہیں تھک رہی۔
فیصل واؤڈا نے ارشد شریف کے قتل میں اسٹیبلشمنٹ کے ملوث نہ ہونے پر زور دیا ہے۔ اس بارے میں آئی ایس پی آر کی طرف سے بیان بھی آ چکا ہے اور وہ اپنے اوپر مختلف حلقوں سے الزام کو بھانپتے ہوئے حکومت سے جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں جس پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے اور تحقیق میں شفافیت کے تاثر کو قائم رکھنے اور الزامات سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے آئی ایس آئی تحقیقاتی ٹیم سے بھی خود کو علیحدہ کر چکی ہے۔
فیصل واؤڈا کی بات میں اس لیے بھی وزن لگ رہا ہے کہ اس نے جس یقین کے ساتھ ارشد شریف کے قتل کے بارے میں اپنے رابطوں اور ثبوتوں کا ذکر کیا ہے اس سے لگتا ہے کہ انکشافات کا یہ ایک آغاز ہے اور اس کے پاس کچھ ایسے ثبوت بھی ہیں جن کی بنیاد پر وہ اتنی جرات کے ساتھ دعویٰ کر رہا ہے۔ اب اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ارشد شریف کے قتل کی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے نہ صرف فیصل واؤڈا کو بلکہ عمران خان کو بھی پیش ہونا پڑے گا کیونکہ دونوں ارشد شریف کے ساتھ اپنے رابطوں اور قتل بارے شواہد کا اعتراف کر چکے ہیں۔
جہاں تک اس پریس کانفرنس کے تحریک انصاف کے لانگ مارچ پر اثرات کا تعلق ہے تو اس سے تحریک انصاف کے کارکن تو فیصل واؤڈا کو اتنا سنجیدہ نہیں لیں گے کیونکہ جاوید ہاشمی جیسے بڑے لیڈر کے علیحدہ ہونے پر بھی کارکنوں کے خیالات میں عمران خان کے بارے میں منفی سوچ پیدا ہونے کے بجائے جاوید ہاشمی کے متعلق ہی پیدا ہوئی تھی۔ اس کے بعد بھی کئی قائدین جماعت سے علیحدہ ہوئے مگر عمران کی مقبولیت یا ہمدردیوں میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ البتہ فوری طور پر لانگ مارچ میں شمولیت کرنے والے شرکا جن کو تفریحی مارچ کی خوشخبریاں سنا کر آمادہ کیا جا رہا تھا تو وہ خونی مارچ کی پیش گوئی سے سوچ میں پڑ گئے ہوں گے کہ ان کو شرکت کرنی چاہئیے یا نہیں۔ خاص طور پر وہ لوگ جو فیملیز کے ساتھ مارچ میں شریک ہونے کا ارادہ رکھتے تھے۔ خونی مارچ کی بات کے بعد عورتیں اور بچے اس سے ضرور خوف زدہ ہوں گے اور اس سے تعداد پر فرق بھی پڑے گا۔ کیونکہ مزاحمت کا سامنے کرنے کی خبر سے پچھلے لانگ مارچ میں بھی کوئی خاص تعداد نہیں نکل سکی تھی حالانکہ وہ مارچ بھی تحریک انصاف کے اپنے حکومتی صوبے سے آ رہا تھا اور اس عدم شرکت کی وجہ فیڈرل حکومت کی طرف سے سختی سے نمٹنے کا اعلان بھی تھا۔
اب کی بار بھی فیصل واؤڈا کے اشارے کے بعد لانگ مارچ میں شامل ہونے والے یقیناً سوچ میں پڑ گئے ہوں گے اور وہ اب اس میں شرکت سے اجتناب برتیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف نے بھی پریس کانفرنس کے ذریعے فیصل واؤڈا پر سوال اٹھاتے ہوئے اس پر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے لانچ کرنے کے الزامات لگا دیے ہیں اور وہ ساتھ ہی اپنے لانگ مارچ کے شرکا کو یہ تسلیاں بھی دے رہے ہیں کہ شرکت سے کوئی خطرہ لاحق ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کو لانگ مارچ میں شریک ہونے والے لوگوں کی تعداد متاثر ہونے کا خوف لاحق ہو رہا ہے۔
فیصل واؤڈا کی ویسے تو کوئی خاص کریڈیبلٹی نہیں مگر جب اس پر اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کے الزامات تحریک انصاف کی طرف سے آئیں گے تو اس سے لوگ یہ ضرور سوچیں گے کہ لانگ مارچ میں شرکت سے مسائل سے دوچار ہوا جا سکتا ہے۔ کارکنوں کو تو شاید اس کانفرنس کی حساسیت کا اندازہ نہ ہو مگر تحریک انصاف کی قیادت کو اسے سنجیدہ ضرور لینا چاہئیے کیونکہ فیصل واؤڈا مرکزی قائدین میں شامل تھا۔ اس لیے وہ کچھ ایسے رازوں سے بھی واقف ہوں گے جن کے بے نقاب ہونے سے جماعت کو ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اس معاملے کو سنجیدہ لیتے ہوئے معاملات کو نیچرلائز کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے اور مذاکرات کے ذریعے سے موجودہ سیاسی عدم استحکام کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔
ان پیش گوئیوں اور انکشافات سے حکومت کو بھی اس حقیقی لانگ مارچ کو روکنے اور اس کے سدباب کے لیے ایک جواز مہیا ہو گیا ہے۔ وہ عدالت عظمیٰ سے بھی ان حقائق اور الزامات کی بنیاد پر رجوع کر سکتے ہیں اور اس کے لیے فوج اور رینجرز کو طلب کرنے کا بھی ایک جواز میسر آ گیا ہے۔
اگر فیصل واؤڈا کے پیچھے خاص ہاتھ ہونے کے تحریک انصاف کے الزام کو مان لیا جائے تو پھر اس پریس کانفرنس سے یہ اندازہ لگانا اور بھی آسان ہو جاتا ہے کہ فیصل واؤڈا کے پاس ثبوت موجود ہوں گے اور یہ انکشافات کا ایک آغاز ہے جس میں کئی نئے انکشافات اور سیاسی موڑ وقوع پذیر ہو سکتے ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ دیتے ہیں کہ اس لانگ مارچ سے مطلوبہ مقاصد کے حصول کے چانسز کم ہوتے جا رہے ہیں۔
اگر عوام ایک بھاری تعداد میں باہر نکل آتے ہیں تو اس سے عوامی طاقت کے اظہار سے تحریک انصاف کے بیانیے کو تقویت مل سکتی ہے جس کا حکومت پر پہلے بھی دباؤ ہے اور مزید اضافہ ہو سکتا تھا مگر جس کے اب چانس کم ہوتے جا رہے ہیں اور حکومت کے لیے آسانیاں پیدا ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ویسے بھی تحریک انصاف کا نیوٹرل ہمدردیوں کے ساتھ یہ دوسرا لانگ مارچ ہے اور پچھلے کا بھی تجربہ حوصلہ افزا نہیں رہا اور اس بار بھی بے رنگ سا ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ جب آغاز میں ہی اپنوں کے ستم سامنے آنا شروع ہو جائیں تو اسے نقارہ قدرت سمجھ کر اپنی حکمت عملی بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔