نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین ڈیل کی چہ مگوئیاں بے بنیاد ہیں

ڈیل کی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں اور نواز شریف کو جن مقدمات میں ضمانتیں ملیں یا گرفتاری کے آرڈرز معطل ہوئے ہیں ان کی حقیقت کو کوئی خاطر میں ہی نہیں لا رہا۔ لوگ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جج ارشد ملک کی عدالتی مخبریوں کو بھی بھول گئے ہیں کہ ان کے ان فیصلوں اور سزاؤں بارے کیا انکشافات تھے۔

نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین ڈیل کی چہ مگوئیاں بے بنیاد ہیں

پاکستانی سیاست میں کچھ سیاسی اصطلاحات کا استعمال بڑی فراخدلی سے ہوتا ہے جن میں ڈیل، مک مکا، دھاندلی اور لاڈلا بہت ہی معروف ہیں۔ اگر دو سیاسی جماعتیں کسی ریاستی معاملے میں اکٹھی ہو جائیں تو ان کے لیے مک مکا کی اصطلاح پکی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اگر انتخابات سے پہلے خاص مہربانیاں کسی پر ہونی شروع ہو جائیں تو اس کی جیت دھاندلی، ڈیل اور لاڈلے پن کی نذر ہو جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی تاریخ ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ کئی خوش نصیب ایسی مہربانیوں کے اہل تو ٹھہرے مگر ان کو ہضم کر لینے کی ابھی تک کوئی بھی مثال موجود نہیں۔

ابھی ماضی قریب ہی کی بات ہے جب عمران خان پر مہربانیاں ہوئیں جن سے انہوں نے لاڈلے کا لقب پایا جو ان کو ہضم نہ ہو پایا اور 2022 تک ان کی مقبولیت انتہائی کم ہو چکی تھی۔ بعد میں ان کی حکومت ختم ہونے اور پی ڈی ایم کے مہنگائی کنٹرول نہ کر پانے سے ان کی مقبولیت پھر سے جاگ اٹھی جس کو وہ اپنی غلطیوں کی وجہ سے سنبھال نہ پائے اور آج پھر سے نواز شریف اور ان کی جماعت کی مقبولیت اوپر جا رہی ہے جس کی بنیاد ان سے وابستہ بہتر معیشت کی امیدیں ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں کو بھی اگلی حکومت میں ان کے مناسب حصے کی یقین دہانی کروائی جا چکی ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف چونکہ 9 مئی کے واقعات کی وجہ سے قانون کی زد میں ہے اور اس کی سینیئر قیادت جماعت کو چھوڑ چکی ہے جس سے ان کے ساتھ ناروا سلوک کا تاثر پیدا ہو رہا ہے۔ اسی طرح نواز شریف کی آمد اور مقدمات میں ضمانتوں اور سزاؤں کی معطلیوں سے یہ تاثر بھی ابھارا جا رہا ہے کہ ان کو خاص مہربانیاں حاصل ہیں۔ اس طرح کے تاثرات انتخابات کے پراسیس کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور غیر جانبداری و شفافیت مشکوک ہوتی جا رہی ہے۔

پاکستان اس وقت جس معاشی امتحان سے گزر رہا ہے ایسے میں اس طرح کی افواہوں اور لغزشوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ اور شفاف طریقے سے ملک کی باگ ڈور منتخب حکومت کو سونپی جانی چاہئیے تا کہ جمہوریت کو نقصان پہنچنے سے بچایا جا سکے۔ ادارے نیوٹرل ہونے سے کسی کو فائدہ پہنچتا ہے تو اس سے اس طرح کا تاثر پیدا کرنا اداروں کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچانے کے متبادل ہے۔ اس طرح کی افواہوں پر حکومت اور الیکشن کمیشن کو بھی ایکشن لینا چاہئیے اور اگر ضروری سمجھیں تو تحقیق بھی کروانی چاہئیے۔ میڈیا کو بھی اس معاملے کو سنجیدہ لیتے ہوئے بے بنیاد الزامات سے پرہیز کرنا چاہئیے۔ عوام اور ریاست کے اداروں کو مل کر اس طرح کی سازشی تھیوریوں سے نمٹنا ہو گا۔

نواز شریف بھی اس تاثر کو قطعاً اپنے حق میں نہ سمجھیں، یہ ان کے خلاف کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سازش بھی ہو سکتی ہے۔ اس سے ان کے ساتھ کی گئی تمام زیادتیاں جن پر ان کو عوام سے ہمدردیاں ملنی تھیں ان سے مکمل توجہ ہٹتی جا رہی ہے۔ گویا لوگ ان سے کی گئی زیادتیوں کو تو بھول ہی گئے ہیں۔ ہر کوئی ضمانتوں اور آرڈرز کی معطلی کی بات تو کرتا ہے مگر جن مقدمات میں ضمانتیں ہوئیں یا آرڈرز معطل ہوئے ہیں ان کی حقیقت کو کوئی خاطر میں ہی نہیں لا رہا۔ لوگ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جج ارشد ملک کی عدالتی مخبریوں کو بھی بھول گئے ہیں کہ ان کے ان فیصلوں اور سزاؤں بارے کیا انکشافات تھے۔

وہی مقدمات ہیں، وہی عدالتیں ہیں مگر صرف اداروں کے سربراہان بدل جانے سے ملکی حالات یکسر تبدیل ہو گئے ہیں اور اس کا فائدہ نواز شریف کو ہی نہیں، ہر ایک کو ہو رہا ہے۔ نیب قوانین میں ترامیم کے کالعدم ہونے کے بعد سے اب تک کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا۔ دراصل پہلے حالات خاص سوچوں کے زیر عتاب تھے اور ان کو جیسے ہی آزادی ملی تو اس سے تبدیلی واقع ہونے لگی۔ ان حالات کا اثر ہی تو ہے کہ اختیارات کے محور تک بدل گئے ہیں اور ججز اور جرنیلوں کے احتساب کی باتیں ہونے لگی ہیں اور انہی تبدیلیوں سے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے بھی کالعدم ہوئے۔ نیب کی سربراہی بدلنے سے وہ پہلے والی نیب کے کارناموں کا وزن اٹھانے سے معذرت کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے جب بڑی بڑی فائلیں ثبوتوں سے خالی ہوں تو محض ان کے وزن کو تول کر تو کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی اور نا ہی سابقہ لوگوں کی وفاداریوں کی تاب کا بھاری بوجھ اپنے کندھوں پر ڈالا جا سکتا ہے۔ اگر ان فائلوں میں ثبوت ہوتے تو پچھلی حکومت اپنے دور میں ہی سزائیں دلوا چکی ہوتی جب ساری انگلیاں گھی میں تھیں اور سب ان کے ساتھ ایک پیج پر تھے۔

ماضی کی سیاسی ثقافت اور تاریخ بتاتی ہے کہ انتخابات میں جس رہنما کی حمایت میں ہمدردیوں کی ہوا چلی اس کو فائدہ ہوا مگر جس پر مہربانیوں کی خبریں چلیں وہ متنازع بن گیا۔ اس لئے اس طرح کے تبصروں سے سیاسی جماعتوں اور عوام میں تشویش سے نواز شریف کو فائدہ عارضی اور کم ہو گا مگر نقصان زیادہ پہنچنے کا خدشہ ہے بلکہ جمہوریت کے مستقبل کے لئے بھی اچھا نہیں۔

لہٰذا جیسے بھی ہو نواز شریف صاحب کو اپنے بارے ایسی خبروں یا تجزیوں سے ابھرنے والے ڈیل کے تاثر کو ختم کرنا ہو گا کیونکہ ایسے ماحول میں انتخابات کو متنازع ہونے سے بچانا مشکل ہو جائے گا۔ ہماری سیاسی ثقافت کی ریت بن چکی ہے کہ جس کے خلاف فیصلہ آ جائے وہ اس کو ماننے سے انکاری ہو جاتا ہے اور جو انتخاب میں ہار جائے وہ دھاندلی کی رٹ لگانا شروع کر دیتا ہے۔

پاکستان کی سیاست اب اس قدر انتشار کی عادی ہو چکی ہے کہ آزادانہ طور پر کسی بھی امر کو چلانا انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ لہٰذا اس وقت انتخابات کروانا یا حکومت بنانا اتنا بڑا معرکہ نہیں جتنا انتخابات کے بعد سیاسی استحکام کو یقینی بنائے رکھنا ہو گا۔ سیاسی انتشار ہی کا نتیجہ ہے کہ آزاد ماحول سے 9 مئی جیسے واقعات نے جنم لینا شروع کر دیا ہے۔ حکومت تو 2013 میں بھی بنی مگر سیاسی استحکام مسئلہ ہی رہا۔ انتخابات تو 2018 میں بھی ہوئے جیسے تیسے بھی تھے جب ممبران نے حلف اٹھا لئے تھے تو پھر چاہئیے تو یہ تھا کہ ساری سیاسی جنگیں پارلیمان کے اندر ہی لڑی جاتیں مگر حکومت اور اپوزیشن دونوں سیاسی کھیل چوک چوراہوں میں ہی کھیلتے رہے۔ 2022 میں عدم اعتماد کے بعد دو چار ووٹوں کا فرق تھا مگر سیاسی جنگیں چوک چوراہوں میں ہوتی رہیں۔ آخرکار پارلیمان کو ویران کرنے کے لیے قومی اسمبلیوں کی نشستوں سے استعفے اور دو صوبائی حکومتوں کو بھی قربان کر دیا گیا، صرف اس لئے کہ وفاقی پارلیمان کو کسی طریقے سے فارغ کیا جا سکے۔

کہا تو جاتا ہے کہ ہم آئینی بحران کا شکار ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہم آئینی نہیں بلکہ اخلاقی بحران کا شکار ہو چکے ہیں جس کا حل شاہد آئین کے پاس بھی نہیں۔ آئین کی بے چاری کتاب کیا کرے جب اس کی تشریحات ہی بدل لی جائیں۔ جب اس کی توقیر اور عمل داری کو موافقت سے مشروط کر لیا جائے تو پھر اس کی حیثیت ایک ریاستی ہتھیار جیسی بن جاتی ہے، جس کے ہاتھ میں ہوگا وہ اس کا استعمال اپنی مرضی اور ڈھال کے طور پر کرے گا۔

ہمیں محض انتخابات ہی نہیں کروانے بلکہ ان کو قابل قبول اور ایک مضبوط پارلیمان کے ذریعے سے ریاستی مسائل کے حل کے قابل بھی بنانا ہے۔ جس کے لئے تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو انتخابات سے پہلے کوئی ایسا لائحہ عمل سوچنا ہو گا جس پر عمل درآمد سے سیاسی استحکام کو ممکن بنایا جا سکے۔ انتخابات میں ہار جیت سے زیادہ قوم و ملک کی خدمت کے جذبے سے حصہ لینا ہو گا اور یہ نیت ہونی چاہئیے کہ خدمت کا موقع اقتدار میں ملے یا حزب اختلاف میں، اس کو خدمت سمجھ کر نبھانا ہے۔ عملی طور پر کچھ دکھانا ہو گا، محض لفاظیوں سے کام نہیں چلے گا۔ آج استحکام کے نام کے سائے میں بیٹھے ہوؤں نے پچھلے دور میں سب سے زیادہ ریاست کو عدم استحکام کا شکار کیا ہے اور اب وہ استحکام کے سائے تلے پھر شاہین کی اڑان پکڑنے کو تیار بیٹھے ہیں۔

سیاست دان اور سیاسی جماعتیں جب انتخابات میں برابری کی بنیاد پر حصہ لینے کا مطالبہ کرتی ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ حکومتوں میں رہنے کے باوجود وہ ریاست کے اداروں سے بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر وہ استطاعت نہیں جو ان کو اصولی سیاست کی بلندیوں تک پہنچا کر جمہوریت کو مضبوط بنانے کی اہل بنا سکے۔ وہ اصلاحات کے مواقع ضائع کر دیتے ہیں اور پھر آسروں کی تلاش میں لگ جاتے ہیں۔ اگر اسی طرح سب اداروں کی طاقت کا پرچار کر کے اپنی سیاسی بساط کو لپیٹتے رہیں گے تو پھر ان سے سنجیدہ سیاست اور جمہوریت پر قائم رہنے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟