انصاف میں تاخیر، مقدموں کا بوجھ؛ چیف جسٹس نے وکلاء تنظیموں کا اجلاس بُلا لیا

اس اجلاس کا ایجنڈا یہ ہے کہ عدالت میں کیا کیا مسائل ہیں؟ فیصلے تاخیر کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟ کبھی کبھار فیصلے ہو جاتے ہیں لیکن تحریری فیصلے مہینوں تک جاری نہیں ہوتے تو ایسا کیوں ہے؟ جلد سماعت کے لیے آنے والی درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کیوں نہیں کیا جاتا؟

انصاف میں تاخیر، مقدموں کا بوجھ؛ چیف جسٹس نے وکلاء تنظیموں کا اجلاس بُلا لیا

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں اصلاحات لانے کے لیے اقدامات کا آغاز کر دیا۔ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ اور پاکستان بار کونسل کا ہنگامی اجلاس کل طلب کر لیا اور عدالتی سٹاف کے لیے واٹس ایپ گروپ بھی تشکیل دے دیا۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی عمران وسیم کا۔

یوٹیوب پر تازہ وی-لاگ میں عمران وسیم نے بتایا کہ گذشتہ روز جب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ آئے تو انہوں نے وہاں استقبال کے لیے موجود عملے کو ہدایات دیں کہ لوگ سپریم کورٹ خوشی سے نہیں آتے، اپنے مسائل ختم کرنے کیلئے عدالت آتے ہیں۔ عدالت آنے والے لوگوں سے مہمانوں جیسا سلوک کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ یقیناً کچھ لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے۔ انصاف کے دروازے کھلے اور ہموار رکھیں۔ جو سائلین عدالت آتے ہیں ان کی مدد کریں۔ انہوں نے عملے سے تفصیلی ملاقات بعد میں کرنے کا کہا تاہم اس مختصر ملاقات میں انہوں نے اپنا پالیسی بیان دے دیا۔

انصاف کی فراہمی میں بہتری کے لیے کیسز کیسے سماعت کے لیے مقرر کیے جائیں گے؟ سائلین درخواستیں دیتے ہیں کہ کیس سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔ جلد سماعت کی درخواستیں بھی آتی ہیں۔ جیل سے ان لوگوں کی درخواستیں بھی آتی ہیں جو بیمار ہیں اور علاج کروانا چاہتے ہیں لیکن وہ درخواستیں فوری طور پر سماعت کے لیے مقرر نہیں ہو پاتیں۔ سالوں سے مقدمات طوالت کا شکار ہیں۔ کئی درخواستیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں یہ مؤقف اختیار کیا جاتا ہے کہ فوری سماعت نہ ہوئی تو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ وکلا کو ایسی بے شمار شکایات تھیں تاہم چیف جسٹس کے بیان کے بعد وکلا اور سائلین کو امید ملی ہے۔ چیف جسٹس نے براہ راست نشر ہونے والی سماعت کے دوران کہا تھا کہ ہمیں ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہیں ملتی ہیں اور ہمارا کام فیصلے کرنا ہے۔ ہمارا یہ کام نہیں کہ کوئی کیس آئے تو اس کو لے کر بیٹھ جائیں اور سماعت کے لیے مقرر نہ کریں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سپریم کورٹ کی گذشتہ سرگرمیوں کا تمام کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ جلد سماعت کی درخواستیں آتی ہیں لیکن انہیں سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا جاتا اور لوگ انتظار کرتے رہتے ہیں۔

ایسے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان تمام شکایات کے حل کے لیے وکلا کی دو بڑی تنظیموں سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون الرشید، چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی حسن رضا کو بار کونسل کے تمام ارکان کے ساتھ جبکہ سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری، سیکرٹری مقتدر اختر اور دیگر منتخب 11 سے 12 ممبران کو مدعو کیا گیا ہے۔

کل یہ اجلاس سپریم کورٹ میں سہ پہر 3 بجے ہو گا۔ اس اجلاس کا ایجنڈا یہ ہے کہ عدالت میں کیا کیا مسائل ہیں؟ فیصلے تاخیر کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟ کبھی کبھار فیصلے ہو جاتے ہیں لیکن تحریری فیصلے مہینوں تک جاری نہیں ہوتے تو ایسا کیوں ہے؟ جلد سماعت کے لیے آنے والی درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کیوں نہیں کیا جاتا؟ ہنگامی نوعیت کے کیسز کیسے شارٹ لسٹ کیے جائیں؟ بنچز کی تشکیل کیسے کی جائے اور مقدمات کو سماعت کے لیے کیسے مقرر کیا جائے؟ وکلا کے دیگر مسائل کیا ہیں اور انہیں کیسے حل کیا جائے؟ ان تمام معاملات پر تجاویز لی جائیں گی اور ان پر تفصیلی بحث ہو گی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عادی درخواست گزاروں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ چیف جسٹس نے آج ایک سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ہم نے عادی مقدمہ بازوں کے راستے کو بند کرنا ہے۔ انہوں نے اس بیان کے ساتھ واضح کر دیا کہ عادی درخواست گزاروں کا راستہ بند کرنا ہے۔

سپریم کورٹ کی رجسٹریوں میں عادی درخواست گزار ہوتے ہیں جو کئی سالوں سے آرٹیکل 184 (3) کو جواز بنا کر سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس اختیار کے تحت مختلف درخواستیں دائر کرتے ہیں۔ ماضی میں شاہد اورکزئی، مولوی اقبال حیدر اور محمود اختر نقوی کی جانب سے ایسی درخواستیں دائر کی جاتی تھیں۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے احکامات جاری کیے گئے تھے کہ یہ عادی درخواست گزار سپریم کورٹ کا وقت ضائع کرتے ہیں اور ان پر پابندی عائد کر دی گئی۔

اسی طرح جب سپریم کورٹ ریویو ایکٹ اور پریکٹس اینڈ پروسیجر بل آئے تو اس کے خلاف بھی درخواستیں آئیں جن میں سے بیش تر عادی درخواست گزاروں کی جانب سے آئیں۔ چیف جسٹس کی جانب سے سماعت کے دوران اس پریکٹس کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس نے ایک واٹس ایپ گروپ تشکیل دیا ہے تاہم اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ یہ نارمل گروپ ہے یا براڈ کاسٹ گروپ ہے۔ اس گروپ میں سپریم کورٹ رجسٹرار جزیلہ اسلم، ایڈیشنل رجسٹرار، چیف جسٹس کے سیکرٹری ڈاکٹر محمد مشتاق احمد سمیت دیگر اعلیٰ عہدیداران کو شامل کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس گروپ کا مقصد سٹاف کی استعداد کار کو بڑھانا ہے۔ حسب ضرورت چیف جسٹس اس گروپ میں ہدایات جاری کریں گے جو تمام ممبران تک پہنچیں گی۔ بعدازاں ان ہدایات پر لیے جانے والے اقدامات کی تفصیل بھی گروپ میں شیئر کی جائے گی۔ یہ تمام چیزیں کاغذی اور تحریری طور پر بھی موجود ہوں گی تاہم اس گروپ سے تمام سٹاف مستعد رہے گا کیونکہ چیف جسٹس صاحب سب کچھ مانیٹر کر رہے ہوں گے۔

سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں بھی ایک واٹس ایپ گروپ تشکیل دیا گیا تھا تاہم وہ جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے تھا لیکن اب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے معاملات کے حوالے سے واٹس ایپ گروپ بنا دیا ہے۔