92 اور حالیہ ورلڈ کپ میں مماثلت، کرکٹ شائقین کی پاکستان کی فتح کی پیشگوئی

دلچسپ بات یہ ہے کہ تاریخی طور پر اعداد و شمار ورلڈکپ سے قبل پاکستان اور بھارت کے حق میں ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ 1999 سے اب تک ورلڈکپ جیتنے والی ٹیمیں رینکنگ میں ٹاپ دو پوزیشنوں والی رہی ہیں۔

 92 اور حالیہ ورلڈ کپ میں مماثلت، کرکٹ شائقین کی پاکستان کی فتح کی پیشگوئی

جب بھی بڑا کوئی کرکٹ میلہ آتا ہے تو  کڑی سے کڑی ملائی جاتی ہے اور ماضی کی صورتحال کو حال کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ ایسے میں کرکٹ شائقین خواہ وہ پاکستان سے ہوں یا کسی اور ملک سے، وہ جیت کے حوالے سے پیشگوئیاں کرنے لگتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر تو تمام تر نشانیاں پوری کی جاتی ہیں کہ پہلے ایسے تھا تو جیت فلاں  کی ہوئی تھی اب ایسے ہے تو جیت بھی اسی کی ہو گی۔ اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے کہ اور نشانیاں ملائی جا رہی ہے۔

ہم نظر ڈالتے ہیں کہ کرکٹ ورلڈ کپ کی اب تک کی تاریخ میں جو بھی فاتح ٹیم رہی تو جب وہ فائنل جیتی تو ان کا رینکنگ میں کون سا نمبر تھا۔ سوشل میڈیا پر پاکستان کے حوالے سے کیا کیا باتیں ہو رہی ہیں اور صارفین نے 92  کے ورلڈکپ کے ساتھ کون کون سی نشانیاں ملا لی ہیں۔

سب سے پہلے بات کرتے ہیں بات کرتے ہیں  آئی سی سی جاری کردہ رینکنگ کے حوالے سے ۔آئی سی سی کی ون ڈے ورلڈکپ 2023 سے قبل ٹیم رینکنگ میں بھارتی ٹیم ورلڈکپ میں نمبر ون جب کہ پاکستان نمبر ٹو کے ساتھ داخل ہو گی۔

بھارت اور پاکستان کی ون ڈے ٹیم رینکنگ پر 5 اکتوبر سے شروع ہونے والے ورلڈکپ سے قبل کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

دلچسپ بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ تاریخی طور پر اعداد و شمار ورلڈکپ سے قبل پاکستان اور بھارت کے حق میں ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ 1999 سے اب تک ورلڈکپ جیتنے والی ٹیمیں رینکنگ میں ٹاپ دو پوزیشنوں والی رہی ہیں۔ 

آسٹریلیا نے 1999 میں ورلڈکپ جیتا تو وہ رینکنگ میں دوسرے نمبر پر تھا۔ اسی طرح جب آسٹریلیا نے دوبارہ 2003 اور 2007 میں ورلڈکپ جیتا تو اس کی ٹاپ پوزیشن تھی۔

اس کے بعد بھارت نے 2011 میں ورلڈکپ جیتا تو ایونٹ سے قبل اس کی رینکنگ دوسری تھی جب کہ 2015 کے ورلڈکپ کا فاتح آسٹریلیا اور 2019 کا فاتح انگلینڈ رینکنگ میں پہلے نمبر پر تھے۔

اس کے علاوہ میزبان ہونا بھی بھارت کے لیے مثبت چیز بتائی گئی ہے کیونکہ حالیہ 3 ورلڈ کپ میزبان ممالک نے ہی جیتے ہیں۔

آئی سی سی نے ریٹنگ سسٹم 1981 میں شروع کیا تھا تاہم 1975 اور 1979 کے ورلڈکپ کے لیے کوئی ریٹنگ سسٹم نہیں تھا۔

1983 کا فاتح بھارت دوسرے اور 1987 کا فاتح آسٹریلیا چوتھے نمبر پر تھا ۔جب کہ 1992کے ورلڈ کپ کا فاتح پاکستان دوسرے نمبر پر اور 1996 کی فاتح ٹیم سری لنکا چھٹے نمبر پر تھی۔

اب بات کرتے ہیں پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کی جنہوں نے 92 ورلڈ کپ کے ساتھ 2023 کے ورلڈ کپ کو ملانا شروع کر دیا ہے اور نشانیاں ڈھونڈ رہے ہیں ۔

تاریخ پر نظر ڈالیں تو 92  میں جب پاکستان ورلڈ کپ کھیلنے گیا، قومی ٹیم دوسرے نمبر پر تھی اور اب بھی پاکستان جب ورلڈکپ کھیلنے جارہا ہے تو  دوسرے نمبر پر ہے۔

یوں یہ تاریخی نشانی پوری ہوئی۔

کوئی کہتا ہے کہ اس وقت کا کپتان عمران خان بہت بہادر اور کنفیڈنٹ تھا ۔اب کا کپتان بابر اعظم بھی اسی طرح پُراعتماد ہےاور ٹیم کو اعتماد دے کر چلتا ہے ۔

کسی نے یہ مذاق میں کہا ہوا تھا کہ 92 میں شیخ رشید کنوارا تھا ۔ تو صاحبان، شیخ رشید آج بھی کنوارے ہیں۔ ایک اور نشانی پوری ہو گئی۔

مطلب کہ اگر ان نشانیوں کے پورا ہونے سے ہماری فتح پکی ہو تو پھر  اب ورلڈ کپ پاکستان کا ہے ۔

لوگ سوشل میڈیا پر  اپنی من مرضی کی نشانیاں بنا کر ورلڈ کپ سے منسوب کر رہے ہیں تاہم کوئی نہیں جانتا کہ ورلڈ کپ کون جیتے گا۔لیکن ایک بات ضرور ہے کہ قومی ٹیم اپنی فُل فارم کے ساتھ بھارت میں موجود ہے اور انشاء اللہ یہ ورلڈکپ پاکستان ہی جیت کر آئے گا ۔