کیا حکمران جماعت تحریک لبیک سے سیاسی اتحاد کی وجہ سے ان سے پابندی ہٹارہی ہے؟
سال 2017 میں تحریک لبیک نامی تنظیم نے جب راولپنڈی کے فیض آباد کے مقام پراپنے مطالبات منوا کر پورے ریاست کو اپنے سامنے سرنگوں کیا تو ملک کے اکثر سیاسی اور سماجی حلقے یہ یقین نہیں کرپارہی تھی کہ یہ جماعت ائندہ سال ہونے والے عام انتخاب میں ایک بڑی سیاسی جماعت کے طور پر نہ صرف سامنے ائیگی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں کامیابیاں بھی حاصل کریگی۔ سال 2017 کے فیض آباد دھرنے کی کامیابی کے بعدمبینہ طور پر کئی ایسی تصاویر اور ویڈیوز سامنے اگئی جس میں ملک کی طاقتور اسٹبیلشمنٹ کی اس دھرنے کی مبینہ سرپرستی پرکئی سوال کھڑے کئے گئے مگر سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ کی جانب سے سوموٹو ایکشن اور جسٹس فائز عیسیٗ کی تاریخی فیصلے نے فیض آباد دھرنے کے کئی ایسے ثبوت سامنے لے آئے جن سے یہحقیقت سامنے اگئی کہ ملک میں منتخب حکومت کو کمزور کرنے کے لئے قومی اسٹیبلیشنٹ کی اس دھرنے کو مکمل معاونت حاصل رہی۔ ان تمام حقائق کے باوٗجود کوئی اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہی نہیں تھے کہ سال 2018 کے عام انتخابات میں یہ جماعت قومی اسمبلی کی نشستوں پر بائیس لاکھ جبکہ صوبائی اسمبلی کے نشستوں پر اٹھائیس لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کریگی مگر پھر وہی ہوا جن پر کوئی یقین نہیں کرپارہا تھا۔
پاکستان میں عسکریت پسندی اور مذہبی سیاسی جماعتوں پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سبوخ سیدسمجھتے ہیں کہ تحریک لبیک پر پابندی نہ لگانے کے پیچھے سیاسی محرکات پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان ٹحریک انصاف اور تحریک لبیک پاکستان دونوں کو اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل ہے اور وہ مستقبل میں سیاسی اتحاد کرنے کا منصوبہ بندی کررہی ہے اس لئے وہ تحریک لبیک پر سختی نہیں کررہی تاکہ مستقبل میں سیاسی اتحاد کو نقصان نہ پہنچے اور یہ بات کئی فورمز پر زیر بحث آئی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ تحریک لبیک نہ صرف سیاست میں سرگرم رہے گی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ نہ صرف فرقہ واریت میں بھی اضافہ ہوگا بلکہ ایک سخت گیر سیاسی جماعت ملک کے پارلیمان کا حصہ بنے گی۔
حکمران جماعت کی جانب سے اس سیاسی جماعت کے ساتھ فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کے معاہدے کی ناکامی نے ایک بار پھر اس تنظیم کو سڑکوں پر آنے کا موقع دیا اور نہ صرف ریاستی رٹ کو چیلینج کیا گیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ریاستی املاک کو نقصان اور پولیس کے اہلکاروں پر ملک بھر میں تشدد ہوا۔ اس سیاسی جماعت کو ملک میں انتشار پھیلانے اور ریاست کو مفلوج بنانے کے جرم میں وزارت داخلہ نے کالعدم قرار دیا اور اس کے بعد بھی لاہور میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی اور بعد میں اس جماعت کو اپنا دھرنا ختم کرنا پڑا۔ اپنے اوپر پابندی ختم کرنے کے حوالے سے اج تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے وزارت داخلہ میں اپنے اوپر پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ وہ الیکشن کمیشن میں بطور سیاسی پارٹی رجسٹرڈ ہے اور ان کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں۔
مگر دلچسپی کی بات یہ ہے کہ تحریک لبیک پاکستان پر ایک طرف حکومت کی جانب سے پا بندی عائد کی گئی ہے تو دوسری جانب وہ کراچی میں اج کے دن ہونے والے ضمنی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔
تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار مفتی نظیر کمالوی نہ صرف کالعدم تحریک لبیک کے چھتری تلے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنا الیکشن مہم بھی زور و شور سے چلا رہے ہیں مگر حکومت کی جانب سے تاحال کوئی کاروائی سامنے نہیں آئی۔
پاکستان میں عسکریت پسندی اور مذہبی سیاسی جماعتوں پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سبوخ سید نے نیا دور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شروع سے یہی لگ رہا تھا کہ اس جماعت پر پابندی برائے نام ہے اور حکومت اس کو صحیح معنوں میں کالعدم کرنے میں سنجیدہ نہیں اس لئے تو صدر علوی نے وائس اف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ پابندی موثر نہیں اور اس جماعت کو بارگیننگ پوزیشن پر لانے کے لئے ان پر پابندی عائد کی گئی اور یہی وہ وجہ ہے کہ وہ الیکشن بھی لڑ رہی ہے اور سیاسی سرگرمیاں بھی جاری رکھی ہوئی ہے۔ سبوخ سید سمجھتے ہیں کہ اگر حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہوتی تو سپریم کورٹ سے رجوع کرتی۔
انھوں نے مزید کہا کہ ماضی میں بھی حکومتوں کی جانب سے یہی رویہ سامنے آیا تھا کیونکہ کالعدم تحریک جعفریہ اور سپاہ صحابہ کا کیس چلا گیا اور اس کو بھی کسی حکومت نے نہیں بلکہ سپریم کورٹ نے یکطرفہ طور پر اس کو کالعدم قرار دیا۔
الیکشن کمیشن کے ترجمان سے جب تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے کراچی الیکشن میں حصہ لینے کے حوالے سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے ایک مختصر پیغام میں بتایا کہ اپ الیکشن کمیشن 2017 ایکٹ کے سیکشن212 کو پڑھ لیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس سیکشن کے تحت ایک کالعدم جماعت انتخابات میں حصہ لے سکتی ہے تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ الیکشن کمیشن کے سیکشن ۲۱۲ کے مطابق اگر کوئی سیاسی جماعت پر دہشگردی میں ملوث رہی یا وہ ملک کے سلامتی کے لئے خطرہ ہو تو حکومت اس جماعت پر پابندی لگانے کے لئے سپریم کورٹ اف پاکستان سے رجوع کریگی اور سپریم کورٹ پھر سیاسی جماعت کے مستقبل کا فیصلہ کریگی۔
سبوخ سید حکومت کی جانب سے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت تحریک لبیک پر پابندی نہ لگا کر سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے کیونکہ ملک میں ایک ہی مظبوط سیاسی مذہبی جماعت ہے جو مولانا فضل الرحمان کے پاس ہے اور وہ اس وقت اپوزیشن کے اتحادی اور ساتھی ہے تو موجودہ حکومت سمجھتی ہے کہ اگر تحریک لبیک کے ساتھ افہام و تفہیم کے ساتھ مسئلہ حل کیا جائے اور مستقبل میں ان کے ساتھ پنجاب میں سیاسی اتحاد قائم کی جائے تو ان سے ان کو سیاسی فائدہ ہوگا کیونکہ اس جماعت کے پاس ایک بڑی مذہبی ووٹ بینک ہے اور حکومت یہی سمجھتی ہے کہ ان کے پاس اتحاد میں کوئی بڑی مذہبی جماعت نہیں۔ اس لئے حکومت مستقبل کے سیاسی فائدے کو دیکھ کر ایسا نہیں کررہی ہے۔ سبوخ سید نے کہا کہ خادم رضوی کی موت کے بعد حکمران جماعت گورنر پنجاب کی قیادت میں تحریک لبیک کے پاس گئی تھی اور ان کو یقین دلایا گیا کہ اگر اپ 2023 کے الیکشن میں ہمارے ساتھ اتحاد کرلیں تو نہ صرف سینیٹ میں اپ کو لایا جائے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپ کی پارٹی کو بھی مضبوط کیا جائے گا مگر سعد رضوی پارٹی کے اندر خود کو مضبوط نہیں سمجھ رہے تھے اس لئے انھوں نے کوئی اتحاد نہیں کیا۔ سبوخ سید سمجھتے ہیں کہ تحریک لبیک کی جانب سے موجودہ انتشار اور مزاحمت سے سعد رضوی خود کو ایک مضبوط امیدوار کو پیش کرنا چاہتے تھے اور وہ اس کو کرنے میں کامیاب بھی ہوئے۔