پچھلے ایک مہینے کی ملکی سیاست نے سبھی کو متاثر کیا ہے۔ ہر کوئی جو ایک خاص جماعت کا سپورٹر ہے، جسکے مطابق ہر دوسری جماعت کا سپورٹر غدار اور جاہل ہے۔ اس بات کو بنیاد بنا کر، سوشل میڈیا پر ایک بحث چھیڑ دی گئی ہے، جس میں خود کا سیاسی لیڈر پارسا ہے جبکہ باقی سارے لیڈرز چور، ڈاکو بنا دیئے گئے ہیں۔ اس بحث میں سبھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں تو اساتذہ بھی اس کار خیر میں اولین دستے کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اساتذہ اب تو اپنے سیاسی نظریات کا پرچار کرنے میں مصروف ہیں اور جو طلبہ اس سے مخالف نظریات رکھتے ہیں، سرِعام انکی کلاس بھی لے رہے ہیں جو کہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔
استاد کا کام صرف تعلیم دینا نہیں بلکہ نئی نسل کی تربیت بھی کرنا ہے۔ ایک آئیڈیل استاد کو غیر سیاسی ہونا چاہیے ۔ یہ اسکے منصب کی شرط ہے۔ میری فرینڈ لسٹ میں کتنے اساتذہ ایڈ ہیں، اب ہر کوئی ایک خاص جماعت کا سپورٹر ہے، اسکے حق میں بیان بازی کر رہا، کل کو وہی استاد کلاس میں کیسے نیوٹرل رہ سکتا ہے، اس کی کلاس میں ظاہری بات ہے کہ ایسے طلبا بھی ہوں گے جو دوسری سیاسی جماعتوں کےسپورٹر ہوں گے، کیا اس استاد کا روایہ انکی طرف غیر جانبدارانہ ہو گا؟ ہر گز نہیں ۔ وہ استاد کے منصب پر بیٹھ کر کیسے سبھی کو ایک زاویے سے دیکھ سکے گا؟ جبکہ کچھ طلبا اس کی جماعت کے حمایتی ہیں جبکہ کچھ اسکے مخالف۔
ہر ذی شعور کی اپنی زاتی سیاسی پسندیدگی / نا پسندیدگی ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے، لیکن جب آپ استاد کے منصب پر فائز ہو جاتے ہیں تو آپکی زمہ داریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے، کیونکہ آپ نے اپنی زاتی تعلیم، تجربہ، سیاسی پسندیدگی کو اگلی نسل کو منتقل کرتے ہیں ،آپ کے طلبا آپ کی شخصیت سے متاثر ہوتے ہیں۔ اسی لیے ایک استاد کے منصب کا کوڈ آف کنڈکٹ اسکے غیر سیاسی ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔ یہی اخلاقیات کا تقاضا بھی ہے۔ ایک استاد کے لیے اس کے سارے طلبا ایک جیسے ہونے چاہیے، خواہ انکا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، انکا تعلق کسی بھی مزہب سے ہو۔ایک استاد کے لیے وہ برابر ہیں ۔ لیکن مسئلہ تب کھڑا ہو گا جب استاد ایک سیاسی جماعت کا حمایتی ہو گا، تو وہ کلاس میں کھبی نیوٹرل نہیں ہو رہ سکے گا۔ وہ اپنی جماعت کے حمایتی طلبہ کو زیادہ اہمیت دے گا، مخالف سیاسی جماعت کے طلبہ کے ساتھ اسکا روایہ ہر گز منصفانہ نہیں ہو سکتا، یہی انسانی نفسیات ہے کہ وہ خود کی ہاں میں ہاں ملانے والے کو زیادہ پسند کرتا جبکہ جو اسکی ہاں میں ہاں نا ملائے، اسکو عام طور پر ناپسندیدگی سے دیکھا جاتا ہے۔ نفسیات کا یہی اصول اساتذہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
ابھی کل ہی ایک محترم استاد، ایک خاص جماعت کی آنے والے بلدیاتی الیکشن کی کھلم کھلا کمپین کر رہے تھے، سوشل میڈیا پر میں نے کتنے ہی اساتذہ کو سیاست کے نام ایک دوسرے سے لڑتے دیکھا ہے۔ یہ اساتذہ اگلی نسل کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟کہ یہ جماعت ٹھیک ہے باقی سب غلط ہیں۔کیا یہ اپنے منصب کا تقاضا بھول گئے ہیں؟؟
اگر آپ کو سیاست اتنی ہی پسند ہے، تو عملی سیاست میں حصہ لیں، اور استاد کا عالی منصب چھوڑ دیں۔آپ نے اپنے عمل سےخود کو ایسا بنا چھوڑا ہے کہ آپ نئی نسل کی معماری کر سکنے کے قابل نہیں۔۔محکمہ تعلیم، میڈیکل ایجوکیشن اور ہائر ایجوکیشن کو اس بابت سخت ایکشن لینا چاہیے ۔ سیاسی جماعتوں سے وابستہ اساتذہ کو اس شعبے سے فوراً ہٹانا ہو گا کہ اس سے پہلے بہت دیر ہو جائے۔ اساتذہ کو اس منصب کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا۔ اگر کوئی اپنا منصب کی عزت سے نا بلد ہے تو اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس منصب پر قائم رہے ۔ نئی نسل کی معماری ایسے اساتذہ کریں جن کے سیاسی اور مزہبی نظریات انکے فرائض انجام دینے کے دوران آڑے نا آئیں۔
کاش ہم نے سانحہ مشرقی پاکستان میں بنگالی اساتذہ کا کردار سمجھا ہوتا تو ہمارے آج کے اساتذہ تعلیم کو سیاست سے علیحدہ رکھتے۔
مضمون نگار ڈاکٹر ہیں اور سر گنگارام ہسپتال لاہور میں آرتھوپیڈک سرجری کی ٹریننگ کر رہے ہیں۔