ہم لوگ مزاجاً شدت پسند اور سہل پسند ہیں۔ شدت پسندی ہمارے خمیر میں بستی ہے اور اس معاشرے میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو گھٹی کے ساتھ ہی شدت پسند مزاج کا تحفہ دے دیا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میدان سیاست ہو یا پھر مذہب اور سامجی اقداروں کی تشریح کا معاملہ ہو، ہمیں مار دو، لٹکا دو کے نعروں کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔ برداشت، تحمل اور اختلاف رائے کے حسین لوازمات سے ہمارا سارج بالکل ناآشنا ہے۔ یہاں اختلاف کو عداوت، برداشت کو کمزوری اور شدت پسندانہ رویوں کو ہیروازم سمجھا جاتا ہے۔ جو جس قدر بڑھکیں لگائے، مذہب اخلاقیات، حب الوطنی اور الیف لیلوی کرپشن کی داستانیں سنا کر دوسروں کی پگڑیاں اچھالے اسے اتنا ہی پسند کیا جاتا ہے۔
افسانوی باتیں، پرفریب سرابوں پر مبنی خواب اور تہذیبی نرگسیت پسندی ہمارے سماج کو مصنوعی تنفس پر جھوٹ کے وینٹیلیٹر پر زندہ رکھنے کا کام انجام دیتے ہیں۔ یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ سماج میں بسنے والے زیادہ تر افراد ملگرام سٹینلی کی تھیوری کے مطابق خود کو دھوکہ دیتے ہوئے بیانیوں اور ان کے طاقتور اجارہ داروں کے آگے سر تسلیم خم کر دیتے ہیں۔ سٹینلی اسے جبری اطاعت کا نام دیتا ہے جو لوگ خوف اور ڈر کی وجہ سے اختیار کرتے ہیں۔ 60 کی دہائی میں سٹینلی نے ایک منفرد اور متنازعہ قسم کا تجربہ اپنی اس بات کو درست ثابت کرنے کیلئے کیا۔ اس تجربے میں رضاکاروں کو بتایا گیا کہ وہ ایک تحقیقی پروگرام کا حصہ ہوں گے۔ انہیں نشستوں پر بٹھایا گیا اور ان کے آگے سپیکر مائکروفون اور ایک باکس رکھ دیا گیا۔ ان رضاکاروں کو بتایا گیا کہ انہیں دوسرے کمرے میں موجود اشخاص سے سکرپٹ پر لکھے کچھ سوال پوچھنے ہیں اور اگر وہ پوچھے گئے سوالات میں سے کسی سوال کا غلط جواب دیں تو سوال پوچھنے والے افراد اپنے سامنے موجود بکس کا بٹن دبا کر انہیں بجلی کے جھٹکے لگانے کی سزا دے سکتے ہیں۔ باکس پر ہلکے جھٹکے سے لیکر تیز اور پھر جان لینے والے کرنٹ کے بٹن موجود تھے۔
یہ سننے کے بعد اکثر رضا کاروں نے اس عمل کا حصہ بننے سے کر دیا لیکن انہیں بتایا گیا کہ وہ تجربہ ادھورا نہیں چھوڑ سکتے، یہ بہت ضروری ہے کہ وہ یہ تجربہ جاری رکھیں اور جب کوئی رضاکار پھر بھی آمادہ نہ ہوا تو اسے بتایا گیا کہ اس کے پاس تجربہ چھوڑ کر جانے کا اختیار اور گنجائش موجود نہیں ہے۔ ان افراد نے تجربہ شروع کر دیا اور حیران کن طور پر 65 فیصد رضاکاروں نے سوالوں کے جواب غلط دینے والے اشخاص کیلئے بجلی کے جان لیوا جھٹکوں کے بٹن کا استعمال کیا۔ ان رضاکاروں نے بعد میں سوال غلط دینے والوں کی طبی حالت کے بارے میں جانکاری کیلئے بھی کوئی سوال نہیں کیے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ان رضاکاروں نے تجربے کے شروع میں کہا تھا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے لیکن یہ سننے کے بعد کہ وہ یہاں سے نہیں جا سکتے سر جھکا کر تجربے کا حصہ بن گئے۔
ملگرام سٹینلی نے اسے جبری اطاعت کا نام دیا اور اس تحویق کو نازی افواج کی جنگ عظیم دوئم کی اطاعت دوارے استعمال کیا۔ یاد رہے کہ اصل میں دوسرے کمرے میں موجود اشخاص جو سوالوں کے جواب دے رہے تھے انہیں بجلی کے جھٹکے نہیں لگتے تھے اور وہ محض اداکاری کرتے ہوئے چیخیں نکالتے تھے لیکن رضاکاروں کو اس کا علم نہیں تھا۔ اسی قسم کے کچھ اور تجربے بعد ازاں کیے گئے جو سماج کی نفسیات کے علم کا رخ موڑنے میں کامیاب ہوئے اور جنہوں نے ثابت کیا کہ کسی بھی معاشرے میں بسنے والے افراد کو طاقت، عدم تحفظ کے خوف یا آسائشات کا لالچ دیکر ایک مخصوص سوچ رکھنے اور اس پر عمل کرنے پر راغب کیا جا سکتا ہے۔ اور زیادہ تر لوگ یہ نظریات، خیالات اپناتے ہوئے اور ان پر عمل کرتے ہوئے یہ سوچتے ہیں کہ یہ ان کے اپنے آزادانہ فیصلے ہیں جو ان پر تھوپے نہیں گئے بلکہ انہوں نے خود انہیں چنا۔
اسی طرح ایک تجربے میں لوگوں سے کہا گیا کہ وہ باسکٹ بال کے کھیل کی ایک ریکارڈنگ دیکھیں اور یہ بتائیں کہ سفید کپڑوں میں ملبوس افراد نے ایک دوسرے کو کتنے پاس دیے۔ تجربے میں شامل افراد ٹی وی سکرینوں پر نظریں جما کر سفید لباس میں ملبوس افراد کے پاسز کو گننے لگے۔ اسی ریکارڈنگ کے دوران ایک شخص گوریلا کے کپڑے پہن کر سکرین کے سامنے سے گزرتا ہے لیکن رضاکار جو سفید لباس میں موجود افراد کے دیے گئے پاسز گننے میں مصروف ہوتے ہیں انہیں اس کا آنا اور جانا دکھائی ہی نہیں دیتا کیونکہ وہ سفید لباس میں ملبوس افراد کے پاسوں کو دیکھنے اور انہیں گننے کے عمل میں مشغول ہوتے ہیں۔
ان تجربات کو اصل زندگی میں مختلف معاشروں میں طاقتور طبقات یا ریاست کی جانب سے اپنا کر عوامی رائے عامہ پر اثر انداز ہوتے ہوئے اسے حسب منشا قابو کیا جاتا ہے۔ ملگرام سٹینلی کا جبری اطاعت کے تجربے اور سفید لباس میں موجود افراد کے پاس گننے کے تجربے سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ خوف جبر اور گھٹن کی فضا میں رائے عامہ زبردستی تبدیل کی جا سکتی ہے جبکہ دوسری بات یہ ہے کہ عوام کا دھیان کہیں اور مرکوز کروا کر پردہ سکرین پر کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ وطن عزیز میں 1958 سے یہی تجربات آج تک دہرائے جا رہے ہیں۔ اور عوام شعوری و لاشعوری دونوں کیفیات میں کبھی شدت پسند مذہبی و جہادی بیانیوں کبھی حب الوطنی، کبھی جمہوریت سے نفرت اور کبھی احتساب کے نعروں کے پیچھے آنکھیں موندے ایک ہی دائرے میں گول گول سفر کیے جا رہی ہے۔ عوام سیاستدانوں پر نظریں مرکوز کیے ان کے لوٹے پیسوں کا حساب کرنے میں مگن ہے اور اپنے سامنے اس تجربے کی مانند گوریلے کا لبادہ پہنے وہ قوتیں جو وسائل اور بیانیوں کی اصل اجارہ دار ہیں انہیں دیکھنے سے قاصر ہیں۔
شدت پسند بیانیوں کی مثال ملگرام سٹینلی کے تجربے کی مانند ہے جہاں مذہب، قوم پرستی، مسلک یا جہاد کے نام پر دوسروں کو بجلی کے جھٹکے مارنے کی مانند نفرت اور تعصب سے کام لینے کا درس دیا جاتا ہے اور عوام من و عن اس پر عمل پیرا ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی سے 50 کی دہائی سے یہ تجربے سماج میں بسنے والے افراد پر کیے جا رہے ہیں اور حقائق کو مسخ کر کے ذہنوں کو اسیر رکھنے کا عمل جاری و ساری ہے۔ نتیجتاً شاید ان بیانیوں کے اجارہ داروں کو تو اس کا فائدہ ہوا ہے لیکن سماج فکری، علمی، تحقیقی، منطقی امن پسندی اور جدید دنیا میں آگے بڑھنے کے لوازمات سے محروم ہو کر بنجر ہو گیا ہے۔
اکیسویں صدی میں بھی ہمارے سماج کو گوئبلز اور ایڈورڈ برنیز کی پرانی پراپیگینڈے کی تھیوریاں استعمال کر کے شدت پسندی پر مبنی وطن پرستی اور مذہب پرستی، اور جمہوریت مخالفانہ نظریات رکھنے کا پابند بنا دیا گیا ہے۔ وہ تاریک لکیر جو ایوب خان نے 1958 میں کھینچی تھی اب ایک سیاہ دائرے میں تبدیل ہو چکی ہے اور اس سیاہ دائرے میں سماج کی اکثریت ہنسی خوشی مقید رہنے کو ترجیح دیتے ہوئے صرف سیاستدانوں اور بیانیوں سے اختلاف رائے رکھنے والوں پر نگاہیں ساکن کیے بیٹھی ہے۔ شاید اس دائرے میں عوام کے ساتھ ساتھ وہ نظریاتی اساس بھی قید ہے جو جناح کے پاکستان کی بقا اور اس کی ترقی ضامن ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم آگے کا سفر طے کرنے کے بجائے اسی دائرے میں گھومے جا رہے ہیں۔
کالم نگار
مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔