ہمارے معاشرے کا سب سے پرانا اور مقبول دھندہ پدر شاہی ہے۔ اور اس کو دھرم مانتے ہوئے کی جانے والی زن بیزاری یا misogyny۔ اس دھرم کی گھٹی پیدا ہوتے ہی مرد کو دی جاتی ہے تاکہ مسوجنی کی جڑیں اس کے ساتھ ساتھ بڑی ہو کر اس کے رویے اور خیالات کو یوں جکڑ لیں کہ ان کو یہ زہر امرت لگے جس کا لوٹا وہ جہاں چاہیں لے جائیں اور جس پر چاہے انڈیل دیں۔ اب چاہے وہ تعلیم یافتہ ہوں یا جاہل۔ وزیر اعظم ہوں یا چھابڑی والا۔ ایسا کرنے کے لئے وقت، مقام اور وجہ کی بھی کوئی قید نہیں۔ گھر کی چار دیواری سے پارلیمان اور پارلیمان سے میڈیا تک کہیں بھی اس ذلالت کا بے فکری کے ساتھ پرچار کریں، مظاہرہ کریں اور پکے رہیں کہ کوئی آپ کو نہیں روکے گا بلکہ چار بندے تھاپی دیں گے کہ واہ واہ، کیا ٹھوکا ہے۔
اس مسوجنی کی گندی زہریلی سوچ کو ہمارے سماجی اور سیاسی رویوں نے عرصے سے اپنا خون دے دے کر سینچا ہے۔ 80 کی دہائی کی سیاست غلیظ جملہ بازیوں سے بھری ہے جس کو حال کی پی ٹی آئی کی سیاست نے ایک نئی سیج دی۔ ہمارے ڈرامے مسوجنسٹک سوچ کو سماجی رویوں میں نہ صرف تبدیل کرتے ہیں بلکہ اس زہر کا پرچار کرتے ہیں۔ یہاں اچھی عورت با صبر، باشرم، باحیا اور بے زبان ہوتی ہے۔ گھر کے اندر مقید، جس کی گھٹی میں چپ ہے۔
پدر شاہی کی صنعت مسوجنی کی تجارت بہت آرام سے کرتے ہوئے اتنی طاقتور ہو چکی ہے کہ کچھ بھی، کہیں بھی کہتے یا کرتے شرم محسوس نہیں کرتے۔ عورتوں نے اسی چپ کی بکل میں پہلے چھوٹے چھوٹے سوراخ کیے اور اب چند سالوں سے عورتوں نے چپ کی بکل دھیرے دھیرے پھاڑ دی ہے، اور ایک آواز سنائی دیتی ہے ’بس‘۔ مسوجنی دھرم کے پیروکاروں کے لئے یہ ’بس‘ بڑا خوفناک لفظ ہے، کیونکہ یہ ان کے دھندے کے لئے زہرِ قاتل ہے۔ اپنا ذہن و زبان کا استمعال کرتی اور اپنے حق اور آواز کے لئے لڑتی یہ عورتیں اس دھرم کے جغادریوں کی ٹانگیں کمزور کر رہی ہیں۔
مسوجنی صرف انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ یہ نظام میں سرایت کر چکی ہے۔ جو خواتین کی شمولیت، ترقی اور آواز سے ڈرتا ہے۔ چاہے وہ خواتین کے لئے نوکری کا کوٹہ ہو، خاتون باس یا سیاسی لیڈر ہو، یا پھر میڈیا پرسن۔
’جس نے کچن کا خرچہ نہیں چلایا وہ ایٹمی ملک کی سربراہ بننے کا خواب دیکھ رہی ہے‘۔ یہ زریں الفاظ جناب فواد چوہدری صاحب کی مسوجنسٹک سوچ کی ہیڈ لائین ہے۔ پوچھنا تھا کہ اگر گھریلو بجٹ بنانے کا وسیع تجربہ اور کمیٹیاں ڈال ڈال کے قرضے اتارنا وزیر اعظم یا وزیر بننے کی بنیادی شرط ہے تو آنے والے سینیٹ کے الیکشن میں میری امی کو ٹکٹ دے دیں، ان کا ساٹھ سالہ تجربہ ہے۔ اور دراصل بے شمار ایسی خواتین مل جائیں گی جو ٹیکنوکریسی کے اس معیار پر پوری اتریں گی اور شاید بہتر کام کر پائیں گی۔
اسی طرح کے میڈیا کے ایک بڑ بولے حوالدار کا نام حسن نثار ہے۔ ان صاحب نے مسوجنی اور بد تہذیبی میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں۔ ان کے ذہن اور زبان کا توازن بگڑا ہوا ہے۔ اکثر اپنی پسندیدہ سیاسی شخصیت کا دفاع لاجک نہ ہونے کی وجہ سے گالیوں کا کف اڑا کر کرتے ہیں۔ رپورٹ کارڈ ہو یا ان کا اپنا پروگرام، یہ خود پسندی اور دوسروں کے لئے حقارت کا اظہار برملا کرتے ہیں۔ بلکہ جب آؤٹ آف فیور ہوں تو بازاری الفاظ کا بول بزاز کر کے وزیر اعظم کو اپنے گھر آنے پر آمادہ بھی کر لیتے ہیں اور پھر دوبارہ راگ درباری چالو ہو جاتا ہے۔
کل جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں ریما عمر کی ساتھ ایک دفع پھر انہوں نے بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا۔ اس سے پہلے انہوں نے پروگرام کی میزبان کی بھی نقلیں اتاریں۔ ”یہ کیا سوال ہے استعفے دیں گے یا نہیں دیں گے؟ کیسا سوال ہے یہ؟ چلو آگے چلو” (پلیز پورا کلپ دیکھیں)۔ پھر وہ مسلسل ریما کے جواب پر چوٹ کرتے رہے اور نقلیں اتارتے رہے۔ ریما کا تمیزدارانہ پش بیک بھی کارگر نہ ہوا اور آواز اور بدتمیزی اونچی ہوتی گئی۔ نہ اینکر نے روکا، نہ مائیک بند ہوا نہ بریک ہوئی۔ نہ منیب فاروق اور رسول بخش صاحب کی زبان سے ایک لفظ نکلا کہ حسن صاحب تمیز کیجیے۔ اور نہ ہی پیمرا کبھی بھی ایسی کسی بات کا نوٹس لے گا کیونکہ وہ تو ویٹ کریم کے اشتہار پر متوجہ ہے۔
یہ ریما یا کسی اور خاتون پینلسٹ کے ساتھ انہوں نے پہلی بار نہیں کیا۔ اس سے پہلے بھی وہ عائشہ بخش کے ساتھ اور ساتھی پینلسٹس کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کر چکے ہیں، جس پر بہت شور بھی مچا مگر موصوف وہاں ہی براجمان ہیں۔ آخر ایسا کیا ہے جو وہ اپنی بدتہذیبی کے لئے جوابدہ نہیں؟ وجہ ہے مسوجنی کو بچاتے مرد اور ادارے جن کے لئے اس طرح کے مبصرین (جو عورتوں اور اپوزیشن کے لئے گھٹیا جملہ بازی کر سکیں) بہت کم بچے ہیں۔ اس طرح کی گھٹیا باتوں کو وہ پروگرام کے شروع میں ایک سلائیڈ چلا کر اپنا انتظام کر لیتے ہیں کے ادارہ کا مبصرین کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
حسن نثار صاحب نے فرمایا ’’دھندے کے وارے میں ہوگا تو اپوزیشن استعفا دے گی ورنہ یہ اپنے باپ کو نہ دیں‘‘۔ بالکل اس طرح بظاہر صحافت کی ترویج کرتے جیو نیوز اور ان کے چینل کے ’دھندے‘ کے لئے جب تک اس طرح کے لوگ ٹی آر پی کھینچتے رہیں گے، یہ ٹی وی سکرین پر براجمان رہیں گے کیونکہ دھندے سے بڑا دھرم نہیں۔ اور اس دھندے میں تو ادارہ اور پروڈیوسر اپنے مسوجنسٹک دھرم کا بھی پالن کر رہے ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ منیب فاروق اور رسول بخش صاحب کہتے کے حسن صاحب اپ ریما کے آرگیومنٹ پر اس طرح بد تمیزی نہیں کر سکتے۔ معافی مانگیے یا علینہ یہ کہتیں کہ حسن صاحب آپ پینلسٹ کے ساتھ اس طرح مخاطب نہیں ہو سکتے۔ مگر کچھ نہ ہوا کیونکہ پینلسٹس اس اڑیل کے ساتھ ٹکر لینے کو راضی نہیں تھے اور پروڈیوسر کی ہداہت کے بغیر علینہ کیا بولتیں؟ نوکری کو خطرہ تھا۔ اور پروڈیوسر کو صرف اس وقت اس کلپ کو وائرل ہونا نظر آ رہا تھا۔ سو یہ ہے مسوجنی کے دھرم کی کل جمع تفریق جو انفرادی سے ادارتی لیول تک کام کرتی ہے۔
کچھ دن پہلے شیریں مزاری صاحبہ نے صدر پاکستان سے استدعا کی کہ ایسے لوگ جن پر مسوجنی اور ہراسانی کا شائبہ بھی ہو تو ان کو حکومتی نوازشات اور ایوارڈ نہ دیا جائے کہ یہ معاشرے کو غلط تاثر دیتا ہے۔ یہ قابل تعریف عمل ہے مگر کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ بات وہ کابینہ میں کرتیں اور وزیر اعظم سے جواب مانگتی۔ یہ ہے وہ انفرادی لڑائی جو ہم عورتیں انفرادی اور ادارہ جاتی مسوجنی کے خلاف لڑ رہی ہیں اور ایسے میں ہمارا ہتھیار فقط ہمارا اکٹھ اور آواز ہے۔
فوزیہ یزدانی سابق بیوروکریٹ اور پالیسی ایکسپرٹ ہیں۔ فوزیہ سیاسی و سماجی موضوعات پر قلم کشائی کرتی ہیں۔ نیا دور پر ان کی ویڈیوز بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔