'ٹیکنوکریٹ حکومت ممکن نہیں، پارلیمانی نظام مدافعت کرے گا'

'ٹیکنوکریٹ حکومت ممکن نہیں، پارلیمانی نظام مدافعت کرے گا'

اس وقت روزانہ فوجی جوان شہید ہو رہے ہیں، فوجی قیادت کے اوپر بھرپور کارروائی کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ہم نے ابھی تک یہ ہی طے نہیں کیا کہ ہم کس قسم کا ملک ہیں، ہم اسلام اور علاقائی تہذیب کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جب سیاسی رہنما مذہبی منافقت سے کام لیں گے تو عوام کی بھی نظریاتی الجھن ختم نہیں ہو سکتی۔ جب تک اس ملک میں پارلیمانی ڈھانچہ موجود ہے تب تک ٹیکنوکریٹس کی حکومت آنے کا کوئی امکان نہیں ہے، پارلیمانی نظام مدافعت کرے گا۔ یہ سب افواہیں پی ٹی آئی کے لوگوں کی جانب سے پھیلائی جا رہی ہیں۔ یہ کہنا ہے صحافی اعجاز احمد کا۔

نیا دور کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے اعجاز احمد نے کہا کہ بشریٰ بی بی نے عون چوہدری کا گھر کے اندر داخلہ بند کر دیا تھا جس کی وجہ ان کی جہانگیر ترین سے دوستی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ترین نے عمران خان کے مشورے پر اپنی نااہلی کے خلاف اپیل دائر کر رکھی تھی۔ ترین نے ایک محفل میں بتایا تھا کہ توازن کو برقرار رکھنے کے لیے عمران اور میرے میں سے کسی ایک کو نااہل ہونا تھا تو میں نے اپنی قربانی دے دی۔ انہوں نے کہا کہ بشریٰ بی بی کو لگتا تھا کہ ترین اور ان کے گروپ کی وجہ سے ان کا اثر کم ہو جائے گا۔ اس ملک کو سودے بازی کی بنیاد پر چلایا جا رہا ہے، نہ جانے آئینی بنیادوں پر کب چلایا جائے گا۔

صحافی عامر غوری کا کہنا تھا کہ جاوید چودھری نے جو کچھ اپنے کالم میں لکھا ہے یہ کوئی نئی باتیں نہیں ہیں، بس اب کچھ باتیں باہر نکالنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ جاننا ہو گا کہ کیا یہ باجوہ صاحب کی طرف سے عمران خان کو ردعمل دیا جا رہا ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ احتساب کا عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب حکومتیں چلی جاتیں ہیں۔ یہ باتیں جو سامنے آئی ہیں یہ اس وقت بھی تھیں جب عمران خان حکومت میں تھے۔ اب ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ وہ اس لیے کہ عمران خان اب اسٹیبلشمنٹ کی بات نہیں مان رہے۔ اس میں اچھی چیز یہ ہو رہی ہے کہ بہت سارے لوگوں کے اصل چہرے سامنے آ رہے ہیں۔

عامر غوری نے کہا کہ اسد قیصر اور قاسم سوری جیسے لوگ وکیلوں کے پاس جا کر آئین اور قانون کے بارے میں پوچھ رہے ہیں، ان کو قانون کا پتہ ہی نہیں ہے۔ عمران خان نے آج تک سب لوگوں کے اوپر جو الزام لگایا ہے، وہ ثابت نہیں ہو سکے۔ اس طرح تو عمران خان جھوٹا ثابت ہو چکا ہے۔ الیکشن عمران خان کی خواہش پر نہیں ہوں گے۔ عمران خان کے پاس پہلے بھی کوئی پلان اور پالیسی نہیں تھی اور اب بھی کچھ نہیں ہے۔ عمران خان کی تحریک صرف دباؤ ڈالنے کا حربہ ہے۔ اصل میں نقصان عوام اور پاکستان کا ہو رہا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک نئی بحث ہو رہی ہے کہ ایک طویل المدت حکومت لائی جائے جس کی مدت کم از کم 20 سال ہو۔ اس حوالے سے چلی، تائیوان اور سنگا پور کی مثالیں دی جا رہی ہیں۔ یہ حکومت ایک پارٹی، ایک شخص اور ایک ادارے کی بھی ہو سکتی ہے۔ اگر وزیراعظم مؤثر نہیں ہیں تو ان کو حکومت کسی اور کے حوالے کر دینی چاہئیے۔ اس وقت ملک کے بعض علاقوں میں حکومت کی رٹ نہیں ہے۔ چند ہزار لوگ حکومت اور اداروں کو مسلسل چیلنج کر رہے ہیں اور پاکستان کے فوجی شہید ہو رہے ہیں۔

صحافی وقار ستی نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے ہر معاملے میں عمران خان کو این آر او دیا۔ باجوہ صاحب 5 فیصد کی بجائے قوم کو پورا سچ بتائیں۔ 2018 کی حکومت عوام کے مینڈیٹ پہ ڈاکہ مار کر بنائی گئی تھی۔ باجوہ صاحب نے اپنی غلطی کا اعتراف کر کے اچھا کام کیا ہے۔ عمران خان پر بہت سارے الزامات اور کیسز ہیں ان کے اوپر کچھ بھی نہیں ہو رہا؟ پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ سارے اراکین قومی اسمبلی کے استعفے ایک ساتھ منظور کر لیے جائیں مگر سپیکر کہتے ہیں کہ آئین کے مطابق سب اراکین کو انفرادی طور پر استعفوں کے لیے سپیکر کے پاس آنا چاہئیے۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔