کیا بین الافغان مذاکرات کے لئے افغانستان میں ماحول سازگار ہے؟

کیا بین الافغان مذاکرات کے لئے افغانستان میں ماحول سازگار ہے؟
آج قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہو گے ہیں، جہاں بہت سے ممالک کے صحافیوں نے ڈھیرے جمائے ہوئے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو مذاکرات کے حوالے سے معلومات دے رہے ہیں۔ اس عمل کے بعد طالبان اور امریکہ کے درمیان جاری تقریباً 19 سالہ براہ راست جنگ ختم ہوجائے گی۔ اس امن معاہدے کے بعد امریکہ مرحلہ وار افغانستان کی سرزمین سے نکل جائے گا جبکہ طالبان کسی بھی دوسری دہشتگرد تنظیم کو اپنی سرزمین یا کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور وہ افغان قیادت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر افغانستان کی مستقبل کے حوالے سے لائحہ عمل طے کریں گے۔

افغانستان سے آئے وفاقی دارالحکومت میں رہائش پذیر افغان اس کوشش سے پرامید تو ہیں مگر ساتھ ساتھ اس خدشے کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ اس معاہدے کے بعد کیا دوسری پراکسی طاقتیں خاموش رہیں گی یا پھر افغانستان میں مزید خون بہے گا۔ صحافی اور افغان امور کے ماہر سلیم صافی نے جنگ اخبار کے آج کے شمارے میں اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ پراکسی عناصر بھی بظاہر اس پورے عمل میں خاموش تھے اور انھوں نے کوئی تحفظات سامنے نہیں لائے۔

انھوں نے لکھا ہے کہ ہندوستان امریکہ کی وجہ سے اس پورے مسئلے پر خاموش تھا جبکہ ایران اور روس بھی اس معاہدے پر کسی بے چینی کا شکار نہیں کیونکہ یہ دونوں ملک بھی چاہتے ہیں کہ امریکہ کا افغانستان سے انخلا ہو۔ بین الافغان امن مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سلیم صافی نے واضح کیا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کا عمل جتنا آسان تھا بین الافغان مذاکرات کا عمل اتنا مشکل ہے کیونکہ امریکہ اور طالبان دو فریق تھے اس لئے ان کے اہداف اور خدشات واضح تھے، پھر بھی ایک سال کا وقت لگا۔ مگر دوسری جانب بین الافغان مذاکرات کا عمل بے حد پیچیدہ ہے، کیونکہ ان میں طالبان کو صرف افغان حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ، رشید دوستم، گلبدین حکمت یار، سول سوسائٹی جس میں خواتی بھی شامل ہوں گی کیساتھ مذاکرات کرنا ہیں، تو اس لئے یہ عمل مشکل ہے۔

حامد کرزئی کا طالبان کے حوالے سے مؤقف نرم ہے جبکہ امر اللہ صالح کا رویہ جارحانہ ہے جس کی وجہ سے افغان مذاکرات کا عمل اتنا آسان نہیں۔ افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے بین الاقوامی میڈیا سے وابسطہ رفعت اللہ اورکزئی نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ اب طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد ساری ذمہ داریاں افغان عوام اور لیڈر شپ کے کندھوں پر آ گئی ہیں کہ وہ کس طرح اس مذاکراتی عمل کو لے کر چلتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ کچھ دنوں سے افغانستان میں طالبان کی جانب سے کوئی بڑی کارروائی نہیں ہوئی جو کہ اس معاہدے کے رو سے بہت مفید ہے مگر اسی دوران افغان صدارتی الیکشن کے نتائج کا اعلان ہوا، جن میں افغانستان کے موجودہ صدر اشرف غنی کو کامیاب قرار دیا گیا جس کے بعد ان کے روایتی حریف عبداللہ عبداللہ نے متوازی حکومت بنانے کا اعلان کیا، جس سے افغان امن عمل کو بہت بڑا دھچکا لگا اور دونوں امیدواروں کے درمیان جب تک اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکلے گا، تب تک بین الافغان امن مذاکرات تقریباً ناممکن نظر آ رہے ہیں۔

اورکزئی نے مزید کہا کہ دوسرا مسئلہ ان پانچ ہزار افغان قیدیوں کا ہے جو اس وقت افغانستان کے مختلف جیلوں میں قید ہیں، جن کی رہائی اس معاہدے سے مشروط کر دی گئی ہے۔ مگر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ افغان حکومت ان قیدیوں کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گے۔ کیونکہ اگر ان کو شروع میں ازاد کیا گیا تو افغان حکومت کی پوزیشن مزید کمزور پڑ جائے گی تو قیدیوں کے رہائی پر بھی مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ تیسرا بڑا چیلنج افغان لیڈرشپ کی اور اقتدار کی شراکت داری کی ہے، کیونکہ اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی ہر کوئی اسی کوشش میں ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اثر رسوخ استعمال کریں اور اپنی ٹیم کے بندے سامنے لائے جبکہ دوسری جانب طالبان کو کن بنیادوں پر اقتدار میں شراکت دار بنایا جائے گا یہ بھی بہت بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔