سپریم کورٹ کے مستعفی جج مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف شکایات پر جاری سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں نجی بینک کے منیجر نے جسٹس (ر) مظاہر نقوی کو پانچ پانچ کروڑ روپے کی ادائیگی کے بینک ڈرافٹ کا ریکارڈ پیش کردیا جبکہ سمارٹ سٹی لاہور کے مالک زاہد رفیق نے بیان بھی ریکارڈ کرادیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ مستعفی جج کی جانب سے کوئی پیش نہ ہوا تو سمجھا جائے گا کہ دفاع کے لیے کچھ ہے ہی نہیں۔
چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل کی زیر صدارت جوڈیشل کونسل کا اجلاس کل (یکم مارچ) تک ملتوی کردیا گیا۔
چیئرمین جوڈیشل کونسل چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کونسل کی صدارت کی، نجی بینک کے منیجر نے پانچ پانچ کروڑ روپے مالیت کے بینک ڈرافٹ کا ریکارڈ کونسل میں پیش کردیا۔
کونسل کی کارروائی میں گواہ چوہدری شہباز پیش ہوئے۔
کونسل نے چوہدری شہباز سے سوال کیا کہ کیا آپ کی مرحوم اہلیہ بسمہ وارثی کا کوئی کیس مظاہر نقوی کی عدالت میں کبھی زیر سماعت رہا۔
جس کے جواب میں چوہدری شہباز نے کہا کہ بطور جج لاہور ہائیکورٹ مظاہر علی اکبر نقوی کی عدالت میں میری اہلیہ کا چیک ڈس آنر کا کیس چلتا رہا۔
اس دوران کیپیٹل سمارٹ سٹی اور لاہور سمارٹ سٹی کے مالک زاہد رفیق نے حلف پر اپنا بیان ریکارڈ کرایا اور کہا کہ میری 8 کمپنیاں ہیں۔ گزشتہ 4 دہائیوں سے تعمیرات کے شعبہ سے وابستہ ہوں۔ لینڈ پرووائیڈر راجہ صفدر کے ذریعے مظاہر علی اکبر نقوی سے ملاقات ہوئی۔
کونسل نے سوال کیا کہ 5 کروڑ روپے سمارٹ سٹی نے مظاہر علی اکبر نقوی کی طرف سے کیوں چوہدری شہباز نے ادا کیے؟ جس پر زاہد رفیق نے جواب دیا کہ ہم نے ادائیگی راجہ صفدر کو کی۔
چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل نے سوال کیا کہ مظاہر علی اکبر نقوی سے کتنی ملاقاتیں ہوئیں؟ جس پر زاہد رفیق نے کہا کہ 2 مرتبہ مظاہر علی اکبر نقوی کے گھر جاکر ان سے ملاقات کی۔ مظاہر نقوی کے دونوں بیٹوں کو جانتا ہوں۔ ہماری کمپنی ماہانہ ڈیڑھ لاکھ روپے مظاہر نقوی کے بیٹوں کی لاء فرم کو ادا کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ مظاہر علی اکبر نقوی کی صاحبزادی کو ایمرجنسی میں لندن میں پیسوں کی ضرورت تھی۔ راجہ صفدر نے مجھے ادائیگی کرنے کا کہا۔ میں نے دبئی میں اپنے ایک دوست کے ذریعے مظاہر نقوی کی بیٹی کو 5 ہزار پاؤنڈز لندن بھیجوائے۔ لندن بھیجی گئی 5 ہزار پاؤنڈز کی رقم ہمیں واپس نہیں کی گئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا راجہ صفدر نے کبھی کسی اور جج سے آپ کی ملاقات کرائی؟ جس پر زاہد رفیق نے جواب دیا کہ کسی اور جج سے ملاقات نہیں کرائی۔ 16 اپریل 2019 کو 500 مربع گز کے 2 پلاٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے دونوں بیٹوں کو دیے۔ فی پلاٹ کی مالیت 54 لاکھ روپے تھی۔ صرف دس فیصد رقم ادا ہوئی۔ دونوں پلاٹس مظاہر نقوی کے دونوں بیٹوں کو ٹرانسفر ہو چکے ہیں۔
چیئرمین جوڈیشل کونسل قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صدقہ تو اپنی جیب سے دیا جاتا ہے۔ راجہ صفدر اپنی جیب سے پیسے نکال کر صدقہ کیوں بانٹتا تھا۔
زاہد رفیق نے کہا کہ ہم دوستوں کو فائدہ دیتے رہتے ہیں۔ سمارٹ سٹی لاہور میں 100 مربع گز کے 2 کمرشل پلاٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے دونوں بیٹوں کو دیے۔ فی پلاٹ کی مالیت 80لاکھ روپے تھی۔ مظاہر علی اکبر نقوی کے بیٹوں نے دونوں کمرشل پلاٹس بیچ دیے۔ پلاٹس کتنے میں بیچے گئے مجھے علم نہیں۔ مظاہر علی اکبر نقوی کے ایک بیٹے کی شادی میں میں نے شرکت کی۔
پراسیکیوٹر عامر رحمان نے کہا کہ الائیڈ پلازہ بارے مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف ریکارڈ سے کچھ ثابت نہیں ہوا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مظاہر نقوی صاحب چاہیں تو اپنے وکیل کے زریعے گواہان پر جرح کر سکتے ہیں۔ آج دوبارہ کہہ رہے ہیں۔ اگر کوئی پیش نہ ہوا تو یہ سمجھا جائے گا کہ دفاع کے لیے کچھ ہے ہی نہیں۔
بعدازاں کونسل نے اجلاس کی کارروائی کل تک ملتوی کرتے ہوئے زاہد رفیق کو کل متعلقہ دستاویزات پیش کرنے کی ہدایت جاری کردیں۔
دوسری جانب سپریم کورٹ کے سابق جج مظاہر نقوی نے جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں کہا کہ جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا حصہ نہیں بنوں گا لیکن اپنے حق کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا حق رکھتا ہوں۔ جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا لیکن اس کے باوجود ان کے خلاف کارروائی کی جاری رہی ہے۔
جج مظاہر نقوی نے خط میں کہا کہ کارروائی میں میرے خلاف شکایت کنندگان کو پرتعیش ہائی ٹی پیش کی جاتی رہی ہے۔جوڈیشل کونسل کی جانب سے مجھے دوسرا شو کاز نوٹس بھیجنا اس بات کا ثبوت تھا کہ پہلا شو کاز نوٹس غلطیوں سے بھرپور تھا۔
مظاہر نقوی نے کہا کہ دوسرے شو کاز نوٹس سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ میرے خلاف لگائے گئے الزامات پر نہ تو بحث کی گئی اور نہ ہی آزادانہ ذہن کا استعمال کرتے ہوئے درست جائزہ لیا گیا۔ سابق جج اعجازالاحسن کا اختلافی نوٹ میرے مؤقف کی تائید کرتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ میرے خلاف کارروائی کے دوران کسی قسم کے بحث و مباحثے کی اجازت نہیں ہوتی۔
’جن 2 رکن ججز پر میں نے اعتراض کیا نہ تو وہ کونسل کی کارروائی سے الگ ہوئے اور نہ ہی حکم امتناع جاری کیا گیا۔ متعدد خطوط لکھنے کے باوجود مجھے جسٹس اعجاز الاحسن کے اختلافی نوٹ کی کاپی بھی فراہم نہ کی گئی۔ کونسل کے چیئرمین نے ایک اجلاس میں میرے وکیل کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ وہ میرے خطوط کا جواب دینے کے پابند نہیں ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ کسی عدالتی یا نیم عدالتی کارروائی کے دوران متاثرہ فریق کو ریلیف دینا سہولت دینا نہیں بلکہ فرض کی ادائیگی کے مترادف ہوتا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کو اپنا فرض ادا کرنا چاہیے تھا۔ 14 دسمبر کو کونسل اجلاس کے دوران رکن ججز نے میرے وکیل کو یقین دہانی کرائی کہ مجھے متعلقہ ریکارڈ فراہم کر دیا جائے۔ لیکن مجھے صرف جُزوی ریکارڈ فراہم کیا گیا۔
مظاہر نقوی نے لکھا کہ چیئرمین پاکستان بار کونسل اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کئی شکایت کنندگان کو مستعدی سے سپروائز کرنے والے کو پراسیکیوٹر لگا دیا گیا۔ مجھے آج تک گواہان کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں، میرے خلاف کونسل کارروائی روک کر حکومت کو سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف زائد المعیاد اپیل دائر کرنے کی اجازت دی گئی۔
سابق جج نے کہا کہ 15 اور 16 فروری کو عافیہ شہربانو کیس فکس ہونے سے بھی پہلے جوڈیشل کونسل نے گواہان کے بیانات ریکارڈ کر لیے۔ مجھے جوڈیشل کونسل کی کارروائی بارے شدید تحفظات ہیں۔ میں نے 10 جنوری کو بطور جج سپریم کورٹ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا استعفیٰ منظور ہوچکا جس کا گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری ہو چکا ہے اس کے باوجود کونسل میرے خلاف کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ میں جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا حصہ نہیں بنوں گا۔ لیکن میں اپنے حق کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا حق رکھتا ہوں۔