بچے سے زیادتی کے ملزم کو پناہ دینے پر مفتی کفایت اللہ کیخلاف مقدمہ درج

بچے سے زیادتی کے ملزم کو پناہ دینے پر مفتی کفایت اللہ کیخلاف مقدمہ درج
مانسہرہ کے مدرسہ میں بچے سے زیادتی کے مرکزی ملزم قاری شمس کو پناہ دینے پر مفتی کفایت اللہ کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق خیبرپختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے ایک مدرسے میں بچے سے زیادتی کے ملزم کو پناہ دینے پر مفتی کفایت کیخلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ ایف آئی آر کے مطابق مفتی کفایت کے خلاف مرکزی ملزم قاری شمس کی گرفتاری ميں رکاوٹ ڈالنے اور پناہ دینے کا الزام ہے۔

مقدمے میں کار سرکار ميں مداخلت کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں، تاہم ابھی تک ان کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔

واضح رہے کہ مانسہرہ میں زیادتی کا شکار بچے کے والدین پر صلح کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے جب کہ مفتی کفایت اللہ کی جانب سے صلح نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق جے یو آئی ف کے رہنما مفتی کفایت اللہ اور ان کے ساتھی نے عدالت کے باہر بچے کے والدین کو تصفیہ نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں۔

ذرائع کے مطابق مفتی کفایت اللہ نے اس حوالے سے متاثرہ بچے کے والدین کو رقم کی پیشکش بھی کی لیکن والدین نے یہ پیشکش قبول نہیں کی۔

واضح رہے کہ طالبعلم سے زیادتی کے مقدمہ میں مرکزی ملزم قاری شمس الدین کا ڈی این اے میچ کر گیا ہے اور پولیس کی جانب مقدمہ کو ماڈل کورٹ میں چلانے کی سفارش کی گئی ہے۔

یاد رہے کہ مانسہرہ سے قاری شمس الدین کو ایک بچے کے ساتھ 100 بار زیادتی کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ 27 دسمبر 2019 کو خیبرپختونخوا کو ضلع مانسہرہ کے تھانہ پھلڑہ میں اس جرم کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق مرکزی ملزم قاری شمس الدین نے 10 سالہ طالب علم، جو مدرسہ تعلیم القران میں زیر تعلیم تھا، سے زبردستی جنسی زیادتی کرنے کے بعد اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور دو دن تک حبس بجا میں رکھا۔

اس مقدمہ کی تفتیش اپنے مراحل مکمل کرنے کے بعد حتمی چلان کی شکل اختیار کر چکی ہے۔

یاد رہے کہ جے یو آئی ف کے مرکزی رہنما مفتی کفایت اللہ کی جانب سے قاری شمس الدین کو گرفتاری سے بھی بچانے کی کوشش کی گئی تھی۔ مفتی کفایت نے قاری شمس کو کئی روز تک پناہ دیے رکھی۔ تاہم بعد ازاں پولیس نے سراغ لگا کر قاری شمس کو گرفتار کر لیا تھا۔