وزیراطلاعات سندھ اور پیپلز پارٹی کے رہنماء سعید غنی نے نیادور میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ آئی جی سندھ کلیم امام کی تعیناتی کے بعد سے کراچی سمیت سندھ بھر میں جرائم میں اضافہ ہوا، لوگوں کا پولیس پر اعتماد بھی خاصا کم ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کئی مقدمات زیرالتواء تھے جن کی تحقیقات میں پیش رفت نہیں ہوئی ہے، وزراء کے خلاف بےبنیاد انکوائریز شروع کی گئیں تاکہ انکو دباؤ میں لایا جاسکے جبکہ میڈیا میں حکومت کی خبریں بھی لیک کی گئیں، آئی جی سندھ کلیم امام اپوزیشن کے رہنماؤں سے خفیہ ملاقاتیں کر رہے تھے۔ انکا کہنا تھا کہ ایسے شخص کا نوکری پر رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے، انہیں تو نوکری سے ہی نکال دینا چاہیے۔
سعید غنی کا کہنا تھا کہ قانون میں موجود ہے کہ آئی کی تعیناتی وفاق اور صوبے کی مشاورت سے ہو گی، ہم نے آئی جی کی تبدیلی کے معاملے پر مشاورت کی جس پر وفاقی حکومت نے اتفاق کیا تاہم اس کا نوٹیفیکیشن جاری نہ ہوسکا۔ عجیب بات ہے آئی جی صاحب پر پوری کابینہ نے عدم اعتماد کر دیا ہے لیکن وہ کہہ رہے ہیں میں نے نہیں جانا۔
مکمل انٹرویو کل نشر کیا جائے گا
یاد رہے کہ وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان آئی جی (انسپکٹر جنرل) سندھ کے تبادلے کے معاملے پر ڈیڈلاک برقرار ہے۔ آئی جی سندھ کی تبدیلی اور تقرر کے حوالے سے گورنر سندھ عمران اسماعیل نے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ سے رابطہ کرلیا۔
دوران گفتگو وزیراعلیٰ سندھ نے گورنر کو آئی جی سندھ کے لیے نئے نام بھیجنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھیجے گئے ناموں میں سے کسی ایک پر اتفاق کیا جاسکتا ہے۔
وفاقی کابینہ نے گزشتہ روز آئی جی سندھ کے معاملے پر سندھ حکومت سے مشاورت کے لیے گورنر سندھ کو اختیار دیا تھا۔
اس سے قبل وزیراعظم عمران خان کے دورۂ کراچی کے دوران وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات میں آئی جی سندھ کے نام پر اتفاق ہوگیا تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں سندھ کابینہ نے آئی جی سندھ پولیس کلیم امام کو عہدے سے ہٹاکر ان کی خدمات وفاق کے سپرد کرنے کی منظوری دی تھی۔ صوبائی حکومت کی جانب سے وفاق کو غلام قادر تھیبو، مشتاق مہر، کامران فضل، انعام غنی اور ثناءاللہ عباسی کے نام نئے آئی جی کے لیے بھیجے گئے تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی اتحاد میں شامل گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کی جانب سے آئی جی سندھ کی تبدیلی پر اعتراض سامنے آیا ہے۔