وزیر قانون نے جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ فل بینچ کا فیصلہ غلط قرار دیدیا

وزیر قانون نے جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ فل بینچ کا فیصلہ غلط قرار دیدیا
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ فل بینچ کا فیصلہ غلط اور تضادات کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جج جوابدہ نہیں تو میں اور وزیراعظم خاندان کے اثاثوں سے متعلق کیوں جوابدہ ہوں؟

جیو نیوز کے پروگرام ’نیا پاکستان‘ میں گفتگو کرتے ہوئے فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مخالفین نہیں ہیں۔ ہمارے پاس ایک معلومات آئیں، وہ ہم نے آگے بڑھائی۔ سپریم کورٹ نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا۔

وزیر قانون کا کہنا تھا کہ کیا مسز سرینا عیسیٰ نے یہ وضاحت دی کہ پیسے کہاں سے آئے؟ صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ میری فیملی امیر ہے۔ ایف بی آر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ مسز سرینا عیسیٰ اپنے ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہیں۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔

سپریم کورٹ نے کیس کا مختصر فیصلہ 26 اپریل 2021 کو سنایا تھا اور عدالت نے 9 ماہ 2 دن بعد نظر ثانی درخواستوں کا تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ تحریر کیا ہے جب کہ فیصلہ 45 صفحات پر مشتمل ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی اور اہلخانہ کا ٹیکس ریکارڈ غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کیا گیا۔

سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے پر گفتگو کرتے ہوئے فروغ نسیم کا کہنا تھاکہ سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ درست نہیں ہے، ہمارے پاس قانونی آپشنز موجود ہیں، معزز ججز کے اختیارات سب سے زیادہ اورذمہ داری بھی سب سے زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں آج وزیر قانون نہیں بلکہ آزاد شہری اوربطور وکیل بات کر رہا ہوں۔ میرا جسٹس فائز عیسیٰ سے کوئی ذاتی معاملہ نہیں ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی طرح دیگر سرکاری افسران بھی پبلک آفس ہولڈرز ہیں۔ کیا اب ڈسٹرکٹ ججز اور انتظامی افسران بھی اہلخانہ کے معاملات سے آزاد ہونگے؟ اگر ایسا ہے تو پھر میں بھی کیوں اپنے اہلخانہ کے اثاثے ظاہر کروں؟

ان کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کا جج اپنے اہلخانہ کے اثاثوں کا جواب دہ نہیں تو کیا یہ معیار دیگر سرکاری ملازمین کیلئے بھی ہوگا؟ اگر جج جوابدہ نہیں تو مثلاً میں اور وزیراعظم اپنے خاندان کے اثاثوں سے متعلق کیوں جواب دہ ہوں؟