آج پاکستان اور افغانستان کا میچ ہو رہا ہے جس میں پاکستان کو لازمی فتح درکار ہے جبکہ یہ میچ افغانستان کے لیے اتنا اہم نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہو چکے ہیں۔
یہ بات سچ ہے کہ بیشتر افغان کرکٹر افغان ٹیم کے بیشتر کھلاڑی اپنا بچپن پاکستان کے مختلف شہروں میں گزار چکے ہیں اور یہیں سے انہوں نے کرکٹ کو جانا اور سیکھا۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ افغانستان میں کرکٹ کی ابتداء پاکستان میں واقع پناہ گزین کیمپوں سے ہوئی۔
درختوں کی ٹہنیوں کو بلے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے معمولی گیندوں اور وکٹوں کے بغیر گرد آلود کچے میدانوں میں کرکٹ کھیلنے والے افغان بچے اور نوجوان اپنے ملک کی ٹیم کو اس مقام پر پہنچا چکے ہیں کہ اب افغان نیشنل کرکٹ ٹیم کو ٹیسٹ سٹیٹس بھی حاصل ہے اور یہ ٹیم آئی سی سی ورلڈ کپ کے علاوہ ٹی 20 ورلڈ کپ بھی کھیل چکی ہے۔کئی افغان کھلاڑی کاؤنٹی کرکٹ کے علاوہ دوسرے کئی ملکوں میں بھی پاکستان سے سیکھے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
بنگلہ دیش کی طرح افغانستان کی کرکٹ کے بھی قدم جمانے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی کوششیں شامل رہی ہیں۔ پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹرز راشد لطیف، کبیر خان اور انضمام الحق افغان ٹیم کی کوچنگ کر چکے ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=MyS4fHQkzd0
تاہم ماضی کے فاسٹ باولر شعیب اختر کا کہنا ہے کہ زیادہ تر افغان کرکٹر کا تعلق پاکستان کے علاقوں پشاور اور کراچی سے ہے، اگر انکے شناختی کارڈ چیک کیے جائیں تو افغانستان کی کرکٹ ٹیم بین ہو سکتی ہے۔
ان کے اس بیان کو لیکر مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔ کئی لوگ انہیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ شعیب اختر کے اس بیان کو تعصب پر مبنی کہا جا رہا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ افغانستان کو دہائیوں تک ایک طویل جنگ کا سامنا رہا ہے جس کے بعد انکی کرکٹ ٹیم سامنے آئی ہے اس میں پاکستان کے کرکٹ ایکسپرٹس کی محنت شامل ہے تاہم اس بنیاد پر دونوں جانب سے نفرت انگیز بیانات قابل مذمت ہیں۔ ہم افغان کرکٹ ٹیم کو سپورٹ نہ بھی کریں تو کرکٹ کو سپورٹ کرنا چاہیے۔