وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان سے اس شرط پر مذاکرات کر سکتی ہے کہ سابق وزیر اعظم اپنے کیے اور کہنے پر قوم سے معافی مانگیں۔
قومی اسمبلی میں ایک شعلہ انگیز خطاب میں انہوں نے عمران خان کو ’’فراڈ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک کو لوٹنے، اداروں پر حملے کرنے اور آئین کی پرواہ نہ کرنے والے سے بات کرنا ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک ایسے شخص کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کی جاسکتی ہے جو ہر چیز پر مذاکرات کے دعوت نامے کو مسلسل مسترد کرتا رہے چاہے وہ COVID-19 ہو، ملک میں دہشت گردی کی موجودہ صورتحال ہو، ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہو یا کشمیر کانفرنس ہو۔
وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ خان کے سامنے جھکنا ناممکن ہے اور کہا کہ جمہوریت میں ہتھیار نہیں ہوتے، صرف گفتگو ہوتی ہے لیکن ہمارے پاس وقت کم ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ آئین نے اختیارات کی تقسیم واضح کردی۔ مقننہ عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات بیان کردئیے۔ ریڈلائن لگادی کہ کوئی اس کو عبور نہیں کرسکے گا۔ بعد میں کیا کیا ہوا سب کے سامنے ہے۔ آج اس آئین کا سنگین مذاق اڑایا جارہا ہے۔ آئین میں موجود مقننہ اور عدلیہ کے اختیارات کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ ایک لاڈلہ کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوتا۔
سپریم کورٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ کل 2 ججز نے کہا کہ الیکشن سے متعلق فیصلہ 3 کے مقابلے 4 کی اکثریت کا تھا اور انہوں نے اپنے فیصلے میں کئی سوالات اٹھائے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد وقت کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اس ایوان میں بیٹھیں اور اپنی معروضات پیش کریں کہ کل جو فیصلہ آیا اس کے حوالے سے پارلیمان کیا قانون سازی کر سکتی ہے کیوں کہ پارلیمان کو ملکی مفاد میں ہر طرح کی قانون سازی کا اختیار ہے۔
وزیراعظم نے کہا عدلیہ کے اندر سے اٹھنے والی یہ آوازیں امید کی نئی کرن ہیں جب عدل نظر آئے تو اس ملک میں تمام خطروں کے بادل چھٹ جائیں گے اور ترازو کا توازن جنگل کے قانون کو بدلے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج ججز کے نام گلی محلوں کے بچوں کے منہ پر ہیں اگر ہمیں اسے ختم کرنا ہے تو انصاف کا بول بالا ہونا چاہیے اس کے لیے قانون، آئین ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم قانون سازی کریں۔
وزیراعظم نے کہا کہ اگر کل کے فیصلے کے بعد ہم نے قانون سازی نہیں کی تو مؤرخ ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی اس لیے ہمیں آج یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کروڑوں عوام کو ریلیف دلانا ہے یا ایک لاڈلے کو ریلیف دینا ہے۔ آئین و قانون پر عمل کرنا ہے یا جنگل کے قانون کو ملک میں چلتے رہنا ہے۔
واضح رہے کہ پیر کو سپریم کورٹ کے دو ججوں نے 27 صفحات پر مشتمل حکم نامہ جاری کیا جس میں دونوں جج صاحبان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کو مسترد کر دیا۔
پنجاب اور کے پی الیکشن کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے لیے جانے والے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے حوالے سے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا تفصیلی فیصلہ سامنے آ گیا ہے۔ دونوں ججوں نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی درخواستیں مسترد کر دیں اور لاہور اور پشاور ہائی کورٹس کو اس حوالے سے زیر التوا درخواستوں پر 3 روز میں فیصلہ سنانے کی ہدایت کی گئی۔
27 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ ازخود نوٹس 4 ججز نے مسترد کیا۔ آرڈر آف کورٹ 3-4 کا فیصلہ ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے ’ون مین پاور شو‘ کے اختیار پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ سپریم کورٹ کو صرف ایک شخص کے فیصلوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ وقت آ گیا ہے کہ چیف جسٹس آفس کا ’ون مین شو‘ کا لطف اٹھانے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ ازخود نوٹس کے اختیار کے بارے میں فُل کورٹ کے ذریعے پالیسی بنانا ہو گی۔
ٹیگز: Chief Justice, Constitution, Elections, government, Imran Khan, Judiciary, Negotiations, PDM, PM Shehbaz Sharif, PTI, suo moto, talks