آج پاکستان کی عدالتی، سیاسی اور پارلیمانی تاریخ کا بڑا دن ہے۔ مگر یہ کسی بڑی خوشی کا دن نہیں، بلکہ سوچنے، سمجھنے اور پھر تاریخ کی درست سمت کھڑے ہونے کا دن ہے۔ ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کا دن ہے جو آج ایک بار پھر فیصلہ سازوں کے سامنے کھڑے ہیں، فیصلہ کرنے کا دن ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کہاں جانا چاہتے ہیں؟
انگریزی محاورہ ہے بیک ٹو سکوائر ون، یعنی جہاں سے چلے تھے وہیں واپس آن کھڑے ہوئے۔
درست کہ پاکستان مستحکم جمہوریتوں کے مقابلے میں قدرے نئی جمہوریت ہے، لیکن بھارت بھی تو ہمارے ہی ساتھ آزاد آزاد ہوا، نئی جمہوریت تو وہ بھی ہے، مگر فرق کیا ہے؟ فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں حق حکمرانی اور اختیار کس کا ہے جیسے مسائل بہت پہلے ہی حل کر لیے گئے تھے، آئین پر عمل کی روایات اور کانسٹی ٹیوشنل ازم کو پختہ کیا گیا، بھارتی فوج ہو یا عدلیہ، اپنے مقررہ دائرہ سے باہر نکلنے کا سوچتی بھی نہیں، فیصلہ سازی پارلیمان اور منتخب نمائندوں کا حق تسلیم ہوا، اور ریاستی ادارے ان فیصلوں پر عمل کے پابند ہیں۔
مگر اس کے برعکس ہم کہاں کھڑے ہیں، فوجی اسٹیبلشمنٹ نے قیام پاکستان کے بعد جو کیا اس ہر بہت کچھ لکھا جا چکا، اور ہماری نوجوان نسل آج کل کی مخصوص سیاسی کشیدگی میں میں جس خاص رویے کا مظاہرہ کر رہی ہے یہی نوجوان نسل جہاں سر عام اسٹیبلشمنٹ کے لتے لے رہی ہے، وہیں عدالتی تاریخ سے مکمل لاعلمی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
اسے یہ نسل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ ساتھ وزیر قانون کی کرسی پر براجمان ہونے والے جسٹس منیر اور ان کے نظریہ ضرورت سے ناواقف ہے، اسے اسکندر مرزا، ایوب خان اور یحییٰ خان کے سامنے کیوں اور کیسے سرنگوں ہوئی عدلیہ کی تاریخ، بھٹو کے عدالتی قتل، مولوی مشتاق اور جسٹس انوار کون اور جنرل مشرف کو آئین میں اپنی مرضی کی ترامیم کا اختیار دینے والے جسٹس ارشاد حسن خان، اور اج کے عدالتی بزر جمہروں کی وابستگیوں کا علم ہی نہیں۔
ایم آر کیانی کے نام سے مشہور جسٹس رستم کیانی، اور ان سے بہت پہلے جسٹس کارنیلئس کے متعلق تو بہت پڑھے لکھے لوگ بھی گفتگو نہیں کرتے، اس نسل کو ثاقب نثاروں اور بندیالوں سے تو محبت سی ہو گئی ہے، مگر ساتھ وہ قانون کی بارہ دری کے پیرزادوں، اور سیدوں سے بھی قدرے عقیدت رکھتی دکھائی دیتی ہے۔
آج پارلیمان کی فتح ہوئی، عدالت عظمیٰ میں بہت سے اچھے ججز کی یہ خواہش بھی بر آئی کہ ازخود نوٹس کا سو موٹو کا اختیار ریگولیٹ کرنے کی راہ نکالی جا رہی ہے، لیکن یہ بیک ٹو سکوائر ون کی جانب بہت کم لوگوں کی نظر گئی ہوگی، کیونکہ آج دکھنے والا ماحول تھوڑے بہت فرق سے ربع صدی قبل بھی موجود تھا، جب 1997 میں نواز شریف حکومت میں ہی قواعد معطل کر کے اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور ان کے "برادر ججز" کے خلاف طویل بحث کی گئی۔
اس وقت آٹھویں ترمیم سے جنم لینے والی خرابیاں بھی موجود تھیں، جمہوریت کی بحالی کے بعد سے فیصلے بھی آج ہی کی طرح مرضی سے ہو رہے تھے، فیصل آباد میں چند سرکاری افسروں کو کھلی کچہری میں وزیر اعظم کے حکم پر ہتھکڑیاں لگانے سے جنم لینے والی چنگاری اتنی بڑھی کہ اس وقت کی سپریم کورٹ دو حصوں میں بٹ گئی۔
سجاد علی شاہ نے آٹھویں ترمیم ختم کی تو فاروق لغاری عارف علوی نہ بن سکے اور استعفا دے کر گھر روانہ ہو گئے۔ اور پھر سجاد علی شاہ کو بھی جانا پڑا۔
وجہ ان کے خلاف کوئٹہ رجسٹری میں ناصر اسلم زاہد جیسے بہترین سمجھے جانے والے جج جی کی طرف سے خلاف ضابطہ پیٹیشن منظور کرنے کا فیصلہ بنا۔ اس وقت سجاد علی شاہ نے بعض ججز کے اکاؤنٹ میں آنے والی رقوم کے ثبوت بھی شیئر کیے، جہاز اور جسٹس رفیق تارڑ کے بریف کیس کے بھی چرچے ہوئے، مگر سجاد علی شاہ کے گھر جانے کے بعد ہمیں سمجھایا گیا کہ اب عدالتی ایکٹو ازم ختم ہوگا، جمہوریت جڑیں پکڑے گی، نظام انصاف میں موجود خرابیوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی، لیکن ہوا کیا؟
اس وقت جسٹس سعید الزمان صدیقی کی بیگم صاحبہ کو خلاف ضابطہ سرکاری عہدہ دینے کی بات تھی تو آج بھی کسی بیٹی کا تذکرہ ہوتا ہے۔ لیکن حاصل کیا ہوا؟ یہی کہ اتنا کچھ ہو جانے کے ربعہ صدی بعد بھی وہی عدالتی تقسیم، اور شائد اسی لئے مجھے لگتا ہے کہ آج کا دن تاریخ میں یاد تو رہے گا، مگر شاید مسئلے کا مستقل حل نہ دے سکے، کیونکہ ایسا صرف اس وقت ہی ممکن ہوگا جب ہم آئین کا احترام کرنا سیکھیں، اس پر عمل کی راہ اپنائیں، پارلیمان مضبوط ہو، ادارے اس کے فیصلوں کے پابند ہوں، عدلیہ ریاستی معاملات چلانے میں سٹیک ہولڈر بننے سے گریز کرے، فیصلے ذاتی پسند ناپسند اور وابستگیوں کے بجائے آئین، قانون اور انصاف کی روایات کے مطابق ہوں، ورنہ اس بار تو ہو سکتا ہے ہم اس بحران سے نکل جائیں، مگر آئندہ ایسا ہوا تو شاید وقت ہمیں بحران سے نکلںے کی مہلت ہی نہ دے۔