'برطرفی کے وقت اکیلا تھا، کوئی جج میرے ساتھ نہیں کھڑا ہوا'

شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ اس وقت کے براہ راست اور فوری بینیفشری جسٹس اطہر من اللہ تھے، تو اس لیے اس وقت شاید ان لوگوں نے مناسب سمجھا کہ چلیں جیسے بھی جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو نکالا جا رہا ہے، انہیں نکالا جائے تاکہ ہمارے لیے چیف جسٹس بننے کا رستہ آسان ہو جائے۔

'برطرفی کے وقت اکیلا تھا، کوئی جج میرے ساتھ نہیں کھڑا ہوا'

جس وقت مجھے عہدے سے ہٹایا گیا میں اس وقت اکیلا تھا۔ اس وقت کی اسلام آباد ہائی کورٹ کا کوئی جج میرے ساتھ نہیں کھڑا ہوا تھا بلکہ انہوں نے ایک لحاظ سے میرا سماجی اور معاشرتی بائیکاٹ کر دیا، خوشی اور غمی کے مواقع میں شرکت چھوڑ دی، سلام دعا چھوڑ دی، عید مبارک تک چھوڑ دی، جسٹس گل حسن اورنگزیب کو نکال کے باقی کسی نے میرے ساتھ کوئی تعاون بھی نہیں کیا اور یہاں تک کہ ہمدردی کا ایک لفظ تک نہیں کہا۔ یہ کہنا ہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا۔

نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں میزبان عاصمہ شیرازی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ اس وقت کے براہ راست اور فوری بینیفشری جسٹس اطہر من اللہ تھے، اس کے بعد جسٹس عامر فاروق تھے، اور پھر جسٹس محسن اختر کیانی کا نمبر آتا تھا تو اس لیے اس وقت شاید ان لوگوں نے مناسب سمجھا کہ چلیں جیسے بھی جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو نکالا جا رہا ہے، انہیں نکالا جائے تاکہ ہمارے لیے چیف جسٹس بننے کا رستہ آسان ہو جائے۔

اس پر عاصمہ شیرازی نے ان سے سوال کیا کہ آپ بتا رہے ہیں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے علاوہ کوئی بھی آپ کے ساتھ رابطے میں نہیں تھا، لیکن جسٹس بابر ستار اور جسٹس طارق جہانگیری صاحب تو بعد میں ججز بنے ہیں۔ اس پر سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جواب دیا کہ اس میں کوئی شک نہیں جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اور جسٹس طارق جہانگیری بعد میں آئے ہیں لیکن جب میری بیٹی کی شادی ہوئی تو میں نے ان جج صاحبان کو بھی شادی میں شرکت کی دعوت دی تھی لیکن اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی موجودگی میں سبھی ججز کے مابین شاید اس بات پر اتفاق رائے پیدا ہو چکا تھا کہ ہم نے شوکت عزیز صدیقی کی خوشی غمی میں شرکت نہیں کرنی۔ اس لیے میری بیٹی کی شادی میں ان ججز میں سے کوئی بھی شامل نہیں ہوا اور کسی ایک بھی جج صاحب نے فون تک کر کے مجھ سے معذرت نہیں کی کہ ہم فلاں وجہ سے شادی میں نہیں آ سکتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چلیں یہ تو ہر ایک کا بڑا پن ہوتا ہے کہ وہ کہیں جاتا ہے یا نہیں تاہم یہ ضرور ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج صاحبان میں سے کوئی بھی میری بیٹی کی شادی میں نہیں آیا تھا۔

سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نومبر 2011 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج تعینات ہوئے تھے۔ 2018 میں انہوں نے انٹر سروسز انٹیلی جنس پر عدالتی معاملات میں مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ آئی ایس آئی نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو عدلیہ کے ذریعے اقتدار سے نکالنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس الزام کے بعد 11 اکتوبر 2018 کو انہیں سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر بطور جج اسلام آباد ہائی کورٹ برطرف کر دیا گیا تھا۔ ان کی برطرفی کے بعد جسٹس اطہر من اللہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے تھے جنہیں بعد میں سپریم کورٹ میں بلا لیا گیا تھا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنی برطرفی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی تھی جسے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے لیے 5 رکنی بنچ کے سامنے مقرر کیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے مذکورہ بنچ نے 22 مارچ 2024 کو سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ سابق جسٹس کو 'برطرف شدہ' کے بجائے 'ریٹائرڈ' تصور کیا جائے اور یہ بھی کہ وہ پنشن اور دیگر تمام مراعات کے مستحق ہیں جو ریٹائرڈ جج کو ملتی ہیں۔

اس پیش رفت کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 جج صاحبان نے عدالتی معاملات میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت سے متعلق سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ دیا۔ اس خط میں معزز جج صاحبان نے سپریم جوڈیشل کونسل سے رہنمائی طلب کی کہ اگر انہیں بھی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی جانب سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے تو اسے روکنے کے لیے انہیں کیا اقدامات اٹھانے چاہئیں۔

اس صورت حال پر غور کے لیے چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ ججز کا فل کورٹ اجلاس بلا لیا۔ اجلاس میں طے پایا کہ اس خط میں چونکہ ایگزیکٹو پر الزامات عائد کیے گئے ہیں اس لیے یہ معاملہ ایگزیکٹو کے موجودہ سربراہ یعنی وزیر اعظم پاکستان کے سامنے رکھنا چاہیے۔ چیف جسٹس کی خواہش پر اگلے روز وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف ان سے ملاقات کے لیے سپریم کورٹ پہنچے اور ملاقات میں وزیر اعظم نے چیف جسٹس کو زیر غور معاملے پر جوڈیشل کمیشن بنانے کی پیش کش کی۔

ملاقات کے بعد وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور اعوان نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ عدلیہ میں مداخلت کے معاملے پر کسی ریٹائرڈ جج صاحب کی سربراہی میں حکومت جوڈیشل کمیشن بنا رہی ہے جو اس معاملے کی تحقیقات کرے گا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 جج صاحبان کی جانب سے لکھے گئے خط پر عوامی رائے منقسم ہے۔ ایک مخصوص سیاسی جماعت ان جج صاحبان کو حق سچ کے علمبردار قرار دیتے ہوئے جہاں معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہے تو وہیں دوسری جانب والے انہیں یاد کروا رہے ہیں کہ سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اسی جماعت کے دور اقتدار میں عہدے سے برطرف کیا گیا تھا مگر تب اس جماعت والوں کی حق پرستی اور آئین پسندی کیوں نہیں جاگی تھی؟

سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی اب اسی دکھ کا اظہار کیا ہے کہ جب مجھے عہدے سے ہٹایا گیا تو اس وقت میں بالکل اکیلا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ کا کوئی جج میرے ساتھ نہیں کھڑا ہوا تھا۔ بلکہ اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے تمام جج صاحبان ایک خاموش معاہدے پر متفق ہو چکے تھے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی سے کوئی تعلق واسطہ نہیں رکھنا۔

معتبر مبصرین کا ماننا ہے کہ عدلیہ میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت بہت پہلے سے ہوتی آ رہی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اس معاملے پر بھی سیاست چمکانے سے باز نہیں آتیں۔ جس سیاسی جماعت کو اپنی حکومت کے دوران اس معاملے پر لب کشائی کرنے والے 'دشمن' دکھائی دیتے ہیں، وہی سیاسی جماعت جب اپوزیشن میں آتی ہے تو اسے یہ پاکستان کا سب سے سنگین مسئلہ لگنے لگ جاتا ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ جب تک سیاسی جماعتیں دوغلا پن نہیں چھوڑتیں اور ان جیسے سنگین مسائل پر سیاست کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک ساتھ نہیں کھڑی ہوتیں، عدلیہ میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت جیسے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔