ایمپائر نے بھی بتا دیا بس آخری چند اوورز کا کھیل باقی ہے!

ایمپائر نے بھی بتا دیا بس آخری چند اوورز کا کھیل باقی ہے!
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے موجودہ وزیراعظم کرکٹ کے حوالے سے عالمی شہرت کے مالک رہے ہیں۔ ایک عرصہ میدان میں رہنے کی وجہ سے کرکٹ انکے حواس پر اس قدر غالب  آ چکی ہے کہ سیاست میں آئے کم و بیش چوبیس سال ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک کرکٹ کی ہی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ہم بھی آج انہی کی زبان میں بات کریں جو ہمارے کپتان کو پسند ہے۔
ہمارے کپتان میاں نواز شریف پر ایمپائر کو ساتھ ملا کر کھیلنے کا الزام لگاتے رہے ہیں لیکن دھرنوں کے دوران صبح شام ایمپائر کو پکارتے رہے۔ سب جانتے ہیں کہ پرویز مشرف کے خلاف ریفرنس ہو یا ایمپائرکے مدت ملازمت میں توسیع کا مسئلہ، سی پیک ہو یا دیگر مسائل میاں صاحب اور کپتان کے اس وقت کے ایمپائر کے درمیان کئی معاملات پر اختلافات پائے جاتے تھے۔ یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ خان صاحب نے دھرنا خود نہیں دیا تھا بلکہ ' ایمپائر' کے کہنے پر ہی انہیں حوصلہ ہوا تھا۔ کپتان کیونکہ پہلے بھی ایک موقع پر تھانہ سے فرار ہو چکے تھے لحاظہ انکی 'بہادری' کے پیش نظر ایمپائر نے تجربہ کار کنیڈین بابا کی کمک بھی فراہم کر دی۔
یہ ساری کارروائی اس وقت کے وزیر اعظم کو اپنی شرائط ماننے پر مجبور کرنے کیلئے کی گئی لیکن وہ شخص جانے کس مٹی سے بنا تھا کہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ میاں صاحب نے  پرویز مشرف کے خلاف ریفرنس واپس لیا نہ مدت ملازمت میں توسیع دی اور نہ ہی سی پیک ایمپائر کے حوالے کیا۔ جب کوئی بھی حربہ کام نہ آیا تو 'ڈان لیکس' کا شوشہ چھوڑا گیا اور ایک حکمت عملی کے تحت ڈان لیکس کو خوب اچھالا گیا لیکن آج اپنی سلیکٹ کی ہوئی حکومت ہونے کے با وجود عوام کو نہیں بتایا جا رہا کہ ڈان لیکس کی پٹاری میں کیا تھا۔
ڈی چوک پر دھرنے کے دوران جو کچھ ہوا میں ہر لمحہ کا چشم دید گواہ ہوں۔ دھرنے میں موجود لوگوں نے خود بتایا کہ انہیں پیسے دے کر لایا گیا ہے۔ میڈیا پر دباوؑ ڈال کر چوبیس گھنٹے نشریات کی گئیں یہاں تک کہ اکثر اوقات خبروں کا ٹائم بھی دھرنے میں ہونے والی خرافات کی نذر کر دیا گیا۔ با ِخبر لوگ جانتے ہیں کہ ڈی چوک پر موجود پولیس اہلکاروں کو ہٹا کر کس نے بلوائیوں کے حوالے کیا۔ شارع دستور پر مختلف دفاتر میں کام کرنے والے لوگوں کی زندگی اجیرن کی گئی۔ پی ٹی وی پر قبضہ کیا گیا۔

اسی دھرنے کے دوران کفن لہرائے گئے قبریں کھودی گئیں، سپریم کورٹ کے جنگلے پر شلواریں لٹکائی گئیں۔ ججز کو عدالت عظمیٰ تک رسائی سے پہلے بلوائیوں کو تلاشی دینی پڑی لیکن سلام ہو ہماری عدالت عظمیٰ پر کہ سو موٹو نوٹس لینے کی توفیق نہ ہوئی۔
جب ان تمام غیر قانونی اقدامات کے بعد بھی وزیر اعظم نواز شریف کی استقامت میں کوئی فرق نہ آیا تو ایمپائر نے کپتان اور انکے کنیڈین کزن کو شرف ملاقات کیلئے اپنی بارگاہ میں طلب کیا۔ دونوں کزنز کی خوشی دیدنی تھی لیکن واپسی پر دونوں مایوس نظر آئے کیونکہ ایمپائر نے انہیں بتا دیا تھا کہ نواز شریف کسی طور شرائط ماننے پر تیار نہیں۔ کنیڈین بابا کیونکہ تجربہ کار تھے اسلئے انہوں نے اپنا بوریا بستر لپیٹ کر واپسی کی راہ لی لیکن کپتان ڈٹا رہا حتیٰ کہ پشاور میں اے پی ایس کا اندوہناک سانحہ پیش آ گیا اور پھر کپتان اور ایمپائر دونوں کے پاس دھرنا ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔

اس ایمپائر کی جگہ دوسرے ایمپائر نے لے لی اورسب سے پہلے عدالت کے ذریعہ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو تا حیات نا اہل کرایا تاکہ آئندہ انتخابات میں حصہ لے کر دوبارہ اقتدار میں نہ آ سکیں اور پھر 2018 کے انتخابات میں لیگ ایمپائر اور ٹی وی ایمپائر کو ساتھ ملا کر اتنے 'شفاف' انتخابات کرائے کہ ایک عالم ششدر رہ گیا۔ ایمپائر اپنے کھلاڑی کو تو میدان میں لے آیا لیکن جلد ہی مایوسی کا شکار ہو گیا کہ جسے سونا سمجھ کر لائے تھے وہ زنگ آلود پیتل نکلا۔ اب ایمپائر بھی سوچ رہا ہے کہ جس کھلاڑی کو میدان میں اتارا ہے اس سے رن تو بن نہیں رہے اسلئے اسکا میدان میں رہنا مزید نقصان کا ہی باعث بنے گیا لیکن سمجھ نہیں آ رہی کہ اسے واپس کیسے بھیجا جائے۔

دوسری طرف دیکھا جائے تو کپتان سمجھ رہا ہے کہ بازی اسکے ہاتھ ہے حالانکہ اسے بھی معلوم ہے کہ اس سے نہیں کھیلا جا رہا اور آخری چند اوورز کا میچ ہی رہ گیا ہے۔ کپتان مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کو بھگا بھگا کر زچ کرنے پر ہی خوشی محسوس کر رہا ہے لیکن بھول بیٹھا ہے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا کل جب مخالفوں کی بیٹنگ آئیگی تب کیا ہوگا۔
شمع مغرور نہ ہو بزم فروزی پہ بہت
رات بھر کی یہ تجلّی ہے، سحر کچھ بھی نہیں

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔