فاروق طارق نے مزید کہا کہ سرمایہ دار پارٹیاں بیماری اور ایکسٹینشن کے پیچھے پڑی ہیں یہاں مسئلہ بھوک بے روزگاری اور غربت کا ہے، یہ عوام کے مسائل نہیں۔
اس سے قبل حسنین جمیل نے میڈیا کو بتایا کہ پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کا کوئی پرانا کیس نکال کر انہیں یونیورسٹی سے خارج کیا اور نکالنے سے پہلے انہیں اپنی صفائی دینے کے لیے بھی کسی کمیٹی میں پیش ہونے کی مہلت نہیں دی گئی۔
24952/
ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ وکلا، انسانی حقوق کے ادارے اور سول سوسائٹی ہیں اور وہ جلد قانونی مدد سے اپنی ڈگری کا کیس آگے لے کر جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اکیلے نہیں بلکہ دیگر یونیورسٹیوں میں بھی کئی طلبہ کو فارغ کیا گیا ہے اور اس کے پیچھے صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے ہمارا طلبہ مارچ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا۔
https://twitter.com/nayadaurpk_urdu/status/1200410565077798914?s=20
لاہور، کراچی، اسلام آباد اور پشاور سمیت پاکستان کے کم از کم 28 شہروں میں طلبا یکجہتی مارچ میں طالب علم اور نوجوان اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی کرتے سڑکوں پر نکل آئے۔ احتجاج میں شریک نوجوانوں نے بینرز اور پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے ہیں۔
طلبہ نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھارکھے تھے جن پر مطالبات کے حق میں نعرے درج تھے جبکہ طلبہ و طالبات نے یونین کی بحالی کے حق میں نعرے بھی لگائے۔
کراچی میں مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ نے ریگل چوک سے پریس کلب تک پیدل مارچ کیا اور ڈھول کی تھاپ پر طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ کیا۔
مارچ میں طالبات کی بھی بڑی تعداد شریک تھی۔
سال سے طلبہ یونینز پر پابندی عائد
خیال رہے کہ پاکستان میں 35 سال سے طلبہ یونینز پر پابندی عائد ہے اور یہ 80 کی دہائی میں جنرل ضیاءالحق کے دور میں لگائی گئی۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار کے بعد 2008 میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے پہلے خطاب میں طلبہ یونینز کی بحالی کا اعلان کیا لیکن اس پر کوئی عمل نہ کیا گیا۔
23 اگست 2017 کو سینیٹ نے متفقہ قرار داد پاس کی کہ یونینز کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں لیکن قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی اکثریت ہونے کے باعث اسے اسمبلی سے پاس نہیں کرواسکی تاہم 35 برس سے طلبہ تنظمیں یونینز بحال کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔