طلبہ مارچ کا اہتمام پروگریسیو سٹوڈنٹس، سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اور ان سے وابستہ دیگر طلبہ تنظیموں کی جانب سے کیا گیا۔
25156/
جمعے کو طلبہ مارچ کے تحت کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں ریلیاں نکالی گئیں۔ لاہور میں ناصر باغ سے شروع ہونے والے اس مارچ میں طلبا کی بڑی تعداد نے پنجاب اسمبلی کے باہر پہنچ کر ’انقلاب انقلاب‘ کے نعرے لگائے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
طلبا کا کہنا تھا کہ وہ اپنے حقوق کے حصول اور اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف باہر نکلے ہیں۔
مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں ہلاک کیے گئے طالب علم مشال خان کے والد اقبال خان بھی لاہور میں طلبا کے اس احتجاج کا حصہ بنے۔
کراچی میں طلبہ یکجہتی مارچ میں زیادہ تر سابق طلبہ یونین، انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکن اور مزدور رہنما شامل ہوئے جبکہ جامعات سے طلبہ کی شرکت محدود رہی۔
https://www.facebook.com/IndyUrdu/videos/809903499423262/
کراچی میں ہونے والے مارچ میں شریک طالب علم نے کہا کہ جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہوتے، اور ان کی بات سنی نہیں جاتی تب تک ان کی جدوجہد جاری رہے گی۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد نے یونین کی بحالی کے لیے نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا۔ طالبات نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر ان کے مطالبات درج تھے۔
کوئٹہ میں بھی بلوچستان یونیورسٹی سمیت مختلف جامعات میں طلبہ تنظیموں پرپابندی کے خلاف احتجاج کیا گیا۔
پاکستان میں دائیں بازو کی جماعتوں اور اسلام پسند حلقوں کی جانب سے طلبہ مارچ کو بائیں بازو کی ترقی پسند تحریک کے احیا کے طور پر دیکھا گیا ہے۔
https://twitter.com/nayadaurpk_urdu/status/1200410565077798914?s=20
https://twitter.com/SindhiBeing/status/1200393450274873345?s=20
وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے طلبہ یونین کی بحالی کی حمایت کرتے ہوئے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ طلبہ یونین پر پابندی غیر جمہوری ہے۔
https://twitter.com/fawadchaudhry/status/1200300827719733248?s=20
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی طلبہ یونین کی حمایت میں اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ سے طلبہ یونین کی حمایت کرتی آئی ہے۔ طلبہ آج یونینز کی بحالی اور حقِ تعلیم کے لیے نکلے ہیں۔
The PPP has always supported Student unions. The restoration of student unions by SMBB was purposely undone to depoliticize society. Today students are marching in the #StudentSolidarityMarch for the restoration of unions, implementation of right to education, 1/2
— BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) November 29, 2019
رواں ماہ لاہور میں منعقد فیض فیسٹول میں پنجاب یونیورسٹی کے نوجوانوں نے طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے آواز اٹھانے کی ایک ویڈیو سوشل میں پر خوب مقبول ہوئی اور دو نوجوان عروج اورنگزیب اور علی حیدر کے جوش نے طلبہ یونین کی بحالی کو ایک تحریک میں تبدیل کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار کے بعد 2008 میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے پہلے خطاب میں طلبہ یونینز کی بحالی کا اعلان تو کیا تھا لیکن اس پر کوئی عمل نہ کیا گیا۔
اس کے بعد 23 اگست 2017 کو سینیٹ نے متفقہ قرار داد پاس کی کہ یونینز کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں لیکن قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی اکثریت ہونے کے باوجود وہ اسے اسمبلی سے پاس نہیں کرواسکی تھی۔
35 سال سے طلبہ یونینز پر پابندی عائد
خیال رہے کہ پاکستان میں 35 سال سے طلبہ یونینز پر پابندی عائد ہے اور یہ 80 کی دہائی میں جنرل ضیاءالحق کے دور میں لگائی گئی۔
سابق صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار کے بعد 2008 میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے پہلے خطاب میں طلبہ یونینز کی بحالی کا اعلان کیا لیکن اس پر کوئی عمل نہ کیا گیا۔
https://youtu.be/3itYsbv8aUU
23 اگست 2017 کو سینیٹ نے متفقہ قرار داد پاس کی کہ یونینز کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں لیکن قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی اکثریت ہونے کے باعث اسے اسمبلی سے پاس نہیں کرواسکی تاہم 35 برس سے طلبہ تنظمیں یونینز بحال کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔