میاں نواز شریف کو جمہوریت کی گڑتی کیوں نہیں ہے؟

میاں نواز شریف کو جمہوریت کی گڑتی کیوں نہیں ہے؟
دو دن پہلے ارشد سلہری صاحب کا ایک مضمون "نواز شریف کو جمہوریت کی گُڑتی نہیں ہے" نظر سے گزرا ۔ ارشد صاحب قابلِ عزت اور سنیئر مضمون نگار ہیں۔ اپنے مضمون میں انھوں نے گڑتی کا اسلامی اور کلچرل پس منظر بڑی تفصیل سے بیان کیا اور اس کے بعد میاں نواز شریف کے بارے میں اپنی رائے کا یوں اظہار کیا کہ "میاں نواز شریف کو سیاست اور جمہوریت کی گڑتی نہیں ہے۔ وہ حادثاتی طور پر سیاست میں آئے اور اب بھی حالات نے ہی ان کو جمہوری بنا دیا ہے۔"

ارشد صاحب کی اس بات سے میں بالکل متفق ہوں کہ نواز شریف صاحب کو سیاست اور جمہوریت کی گُڑتی نہیں ہے۔ بلکہ پاکستان میں آج تک کوئی بھی ایسا سیاسی لیڈر نہیں آیا جس کو سیاست اور جمہوریت کی گُڑتی ملی ہو۔ کیونکہ، ذوالفقار بھٹو جیسے پاکستان کے سب سے بڑے عوامی لیڈر کو بھی جنرل ایوب خان کے ذریعے سیاست میں آنے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے کہ پاکستان بننے سے لے کر آج تک یہاں پر ایک ہی ادارے نے بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومت کی ہے۔

اب ایسے ماحول میں جمہوریت اور سیاست کی حالت اور کیا ہوگی کہ جب پاکستان بننے کے بعد آدھے سے زیادہ وقت یہاں پر فوجی ڈکٹیڑوں نے براہِ راست حکومت کی ہو اور باقی ادوار میں بھی اسی ادارے نے انتخابات پر اثر انداز ہو کر ہی اپنی مرضی سے حکومتیں بنائی اور گرائی ہوں۔ کسی بھی منتخب وزیرِاعظم کو اپنی آئینی مدت نہ پوری کرنے دی گئی ہو۔ جبکہ، ہمارے ساتھ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں جسے ہمارے ساتھ ہی آزادی ملی، وہاں پر نہ تو کبھی کسی نے ان کی جمہوریت اور سیاست پر سوال اٹھایا اور نہ ہی کسی بھی سیاسی لیڈر کے بارے میں کسی نے یہ کہا کہ ان کو سیاست اور جمہوریت کی گڑتی نہیں ہے۔

وجہ یہی ہے کہ وہاں پر فوج صرف اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنے کا کام سرانجام دیتی ہے اور سیاست میں مداخلت کرنے کی بجائے سیاستدانوں کو اپنا کام کرنے دیتی ہے۔

جہاں تک میاں نواز شریف صاحب کی سیاست ہے تو اس بات کا کسے علم نہیں ہے کہ ان کو کس طرح سے جنرل ضیاالحق کے دور میں سیاست میں لایا گیا۔ ان کے بہت سارے سیاسی فیصلوں پر تنقید بھی کی جاسکتی ہے۔ مگر، اس وقت جو پوزیشن انھوں نے لی ہوئی ہے وہ بالکل بھی حادثاتی نہیں ہے۔ کیونکہ، جب ان کی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز لندن ہسپتال میں اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھیں۔ اس حالت میں نواز شریف صاحب ان کو چھوڑ کر واپس یہاں آئے اور تمام مقدمات کا سامنا کیا۔ اگر وہ چاہتے تو وہاں رک سکتے تھے جس کا ان کے پاس معقول جواز بھی موجود تھا۔ مگر، بہت سارے لوگوں کی سوچ کے برعکس وہ اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر واپس آئے۔ ان کو تب سے ہی آفرز کی جاتی رہیں کہ وہ ڈیل کر کے یہاں سے باہر چلے جائیں اور اس بارے میں افواہوں کا ایک ایسا بازار گرم رکھا گیا جو ابھی بھی جاری ہے۔

میاں صاحب اپنی شدید بیماری کی حالت میں اس وقت باہر کے ملک علاج کے لئے جانے پر بھی راضی نہیں ہیں۔ چاہے ان کے مخالفوں نے ان کی اہلیہ کی بیماری کی طرح ان کی بیماری کا بھی خوب مذاق اڑایا۔

اس لیے آپ ضرور ان کو سیاسی اور جمہوری نہ ہونے کے طعنے دیں۔ مگر، کم از کم وہ ڈکٹیٹر مشرف صاحب کی طرح باہر چھپ کر نہیں بیٹھے بلکہ یہاں پر رہ کر تمام مشکل حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ سیاست اور جمہوریت کی گڑتی بلاشبہ ان کو نہیں ملی مگر اس وقت وہ جمہوریت اور مزاحمت کی سب سے بڑی علامت بن چکے ہیں۔ اس میں ان کا ساتھ ان کی بیٹی مریم نواز بھرپور طریقے سے دے رہی ہیں۔

آگے چل کر حالات چاہے جیسے بھی ہوں مگر ان کے اس مزاحمت اور سول بالادستی کے بیانیے نے ان کو تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کی طرح امر کر دیا ہے۔

مصنف جامعہ پنجاب سے ابلاغیات میں ماسٹرز کر چکے ہیں، سیکولرازم کے حامی اور سیاست، ادب اور موسیقی سے شغف رکھتے ہیں۔