Get Alerts

اربوں کھربوں روپے کے الزام لگانے والے دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں کرسکے: میاں شہباز شریف

اربوں کھربوں روپے کے الزام لگانے والے دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں کرسکے: میاں شہباز شریف
مسلم لیگ )ن( کے صدر میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ایف بی آر اور نیب کی مدد سے میرے خلاف اربوں کھربوں کی منی لانڈرنگ کے الزامات لگائے گئے لیکن ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں ہو سکی۔

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کا شمار دنیا کے ممتاز انوسٹی گیشن اداروں میں ہوتا ہے، اس اہم ادارے کا فیصلہ آنے کے بعد پی ٹی آئی حکومت میں کہرام مچا ہوا ہے۔ اب تمام حقائق خود عوام جان چکے ہیں۔

انہوں نے اپنی کانفرنس میں وزیراعظم عمران خان اور دیگر وزرا کے بیانات کے کلپس بھی چلائے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے ان کیخلاف ٹیمیں چین بھی بھجوائیں مگر تحقیقات سے کچھ نہیں نکلا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے میری بدنامی پر پیسہ لگا کر ملکی ساکھ کو بھی متاثر کر دیا ہے۔ میں نے کرپشن کے جھوٹے الزامات پر میں نے دو مرتبہ جیل کاٹی، اب بھی عمران خان صاحب کا بس چلے تو مجھے جیل بھجوا دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ برطانوی صحافی ڈیوڈ روز کی ڈیلی میل میں چھپنے والی خبر میں رتی برابر بھی سچائی نہیں تھی۔ مجھ پر لگائے گئے الزامات کی صفائی برطانوین حکومت نے دی کہ کوئی کرپشن نہیں ہوئی۔ عمران خان اور ان کے وزرا کی جانب سے میرے خاندان پر جو بھی تہمتیں لگائی گئیں اسے برطانوی ایجنسی نے رد کردیا۔ اب بھی پی ٹی آئی رہنما ٹی وی پر بیٹھ کر الزامات لگا رہے ہیں۔ شہباز شریف نے اپنی اور لیگی رہنماؤں کی گرفتاریوں کو نیب نیازی گٹھ جوڑ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سب سے کیا نکلا؟



خیال رہے کہ برطانوی عدالت نے مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کو منی لانڈرنگ کے الزامات سے بری کر دیا ہے۔

برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کی رپورٹ عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ متحدہ عرب امارات، انگلینڈ اور پاکستان میں کی گئی انوسٹی گیشن میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ شریف خاندان منی لانڈرنگ میں ملوث نہیں ہے۔

نیشنل کرائم ایجنسی نے لیگی صدر اور ان کے صاحبزادے سلیمان شہباز کے منجمد اکاؤنٹس کی تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ تقریباً اکیس مہینے شریف خاندان کے بارے میں منی لانڈرنگ کے الزامات کی انوسٹی گیشن میں 20 سالوں کے مالی معاملات کا جائزہ لیا گیا لیکن میاں شہباز شریف اور ان کے خاندان کے بینک اکاؤنٹس میں کرپشن، منی لانڈرنگ اور مجرمانہ سرگرمیوں کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے برطانیہ سے درخواست کی تھی کہ کرپشن کا پیسہ وطن واپس بھیجا جائے، اس لئے درخواست پر عمل کرتے ہوئے میاں شہباز شریف اور ان کے اہلخانہ کے بینک اکاؤنٹس کو 2019ء میں منجمد کر دیا گیا تھا۔ ان منجمد اکائونٹس کو اعلیٰ سطح کی انوسٹی گیشن سے مشروط کیا گیا تھا۔

برطانوی ایجنسی نے پاکستان، قومی احتساب بیورو (نیب) اور ایسٹ ریکوری یونٹ کی درخواست پر تحقیقات شروع کی تھیں۔ اس اہم تحقیقات کے دوران برطانیہ پاکستان اور متحدہ عرب امارات میں میاں شہباز شریف اور ان کی فیلمی کے بینک اکائونٹس کی چھان بین کی گئی تھی۔

اب برطانوی کورٹ نے میاں شہباز شریف اور ان کے خاندان کو منی لانڈرنگ اور مجرمانہ سرگرمیوں کے الزامات سے بری کرتے ہوئے ان کے منجمد اکاؤنٹس بھی بحال کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

تاہم مشیر برائے داخلہ واحتساب شہزاد اکبر نے دعویٰ کیا ہے کہ شہباز شریف کے خلاف کیخلاف برطانیہ میں کوئی مقدمہ نہیں بنایا گیا تھا، میڈیا میں ان کی بریت کا تاثر درست نہیں ہے۔

گزشتہ دنوں میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے سلمان شہباز کے 2 اکائونٹس منجمد کئے تھے اور اب ان کو بحال کر دیا ہے۔ یہ ایجنسی شک کی بنیاد پر کوئی بھی اکائونٹ 12 ماہ کے لئے بند کر سکتی ہے۔ یہ سلمان شہباز کا معاملہ تھا، شہباز شریف سے ان کے بچوں کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ اس سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کے خلاف 7 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا مقدمہ احتساب عدالت لاہور میں زیر سماعت ہے جس میں 12 گواہ عدالت میں پیش ہو چکے جبکہ باقی گواہ ابھی پیش ہونے ہیں اور اس کا فیصلہ عدالت نے ہی کرنا ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ شہباز شریف، حمزہ شہباز اور مفرور سلمان شہباز کے خلاف 25 ارب روپے کا مقدمہ چل رہا ہے۔ اس مقدمے میں شوگر ملز کے چھوٹے ملازمین کے نام پر بے نامی اکائونٹس کے ذریعے اربوں روپے ان کو منتقل کئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ جیسے شہباز شریف کو بریت ملی، اسی طرح یہ تاثر بھی دیا گیا کہ یہ مقدمہ نیب یا ایسٹ ریکوری یونٹ نے شروع کرایا، یہ دونوں باتیں سراسر غلط ہیں، یہ مقدمہ سلمان شہباز کے 2 مشتبہ اکائونٹس سے متعلق تھا اور اس کے فیصلے میں کہیں بریت کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے پاکستان سے کچھ معلومات مانگی تھیں جس کےجواب میں دسمبر 2019ء میں ایک خط کے ذریعے ان کے سوالات کے جوابات دیئےگئے۔ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے یہ پوچھا تھا کہ ان لوگوں کے خلاف کن مقدمات میں انویسٹی گیشن جاری ہے جس پر ہم نے اس حوالے سے آگاہ کر دیا تھا، ہم نے مقدمہ شروع کرنے کی کوئی بات نہیں کی تھی۔

مشیر داخلہ واحتساب نے کہا کہ جعلی بیانیہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، متعلقہ رپورٹر نے اس خبر کے حوالے سے مجھ سےموقف لینے کے لئے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ حقائق کو درست انداز میں بیان کرنا میڈیا کی ذمہ داری ہے، میڈیا کو حقائق مسخ نہیں کرنا چاہیں، میں اس خبر کے حوالے سے قانونی کارروائی کے لئے وکلا سے مشاورت کر رہا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اپنے قائد سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلوں کو نہیں مانتی، کسی مقدمے کی بریت کی رپورٹ شیئر کرنے سے بریت نہیں ہو جاتی،جھوٹی خبروں پر توجہ نہیں دینی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے خود ہی سلمان شہباز کے اثاثے منجمد کئے اور خود ہی بحال کر دیے، ان کا پاکستان میں چلنے والے مقدمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔