بلوچستان حکومت نے تمام محکموں کے سربراہان اور سینیئر سرکاری افسران کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنے موبائل فون نمبرز پر رنگ بیک ٹون ’پاکستان زندہ باد‘ لگالیں۔
بدھ کو محکمہ ملازمت ہائے اور عمومی نظم و ضبط (ایس اینڈ جی اے ڈی) کے انتظامی شعبے کے سیکشن افسر بہادر خان کے دستخط سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق اس بات کا فیصلہ چیف سیکریٹری بلوچستان کی زیر صدارت اجلاس میں کیا گیا۔
اعلامیے میں تمام محکموں کے سیکریٹریز، ایڈیشنل سیکریٹریز، ڈپٹی سیکریٹریز اور دیگر متعلقہ محکموں کے سربراہان کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اس فیصلے کی سختی سے تعمیل کریں۔
اعلامیے میں مختلف موبائل فون آپریٹرز کے نمبرز پر ’پاکستان زندہ باد‘ رنگ ٹونز کیسے سیٹ کرنی ہے کا طریقہ کار بھی بتایا گیاہے۔
بلوچستان حکومت کے ایک سینیئر افسر نے تصدیق کی کہ ’انہیں یہ نوٹی فیکیشن موصول ہوا ہے۔‘
یہ ایک ایسا اعلامیہ ہے جس پر سوائے بلوچستان حکومت کے ان چار، چھ افسروں کے جنہوں نے یہ فیصلہ کیا، کوئی فخر نہیں کر سکتا۔ مقصد کیا ہے؟ سوچنے پر بھی دو سے تین مقاصد ہی سمجھ میں آتے ہیں۔ ایک تو یہ ہو سکتا ہے کہ شاید یہ فیصلہ اس لئے کیا گیا ہو کہ بلوچستان کے تمام افسران یہ کالر ٹیون لگا کر عوام کو پاکستان کے لئے ان کے دلوں میں محبت پیدا کرنا چاہتے ہوں۔ جس سے سب سے پہلے دماغ میں یہی خیال آتا ہے کہ کیا بلوچستان کے عوام پہلے ہی سے محبِ وطن نہیں ہیں جو انہیں بنانا پڑ رہا ہے اور وہ بھی سرکاری سطح پر حکمنامے جاری کر کے؟
دوسری وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ بلوچستان میں سینیئر بیوروکریسی کو سرکاری افسران کی حب الوطنی پر کوئی شک شبہ ہے اور وہ یا تو ان کے ٹیسٹ لے رہے ہیں یا پھر یہ زبردستی کی حب الوطنی ان کے دلوں میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی تیسری وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
سینیئر صحافی مبشر زیدی نے ٹوئٹر پر بجا طور پر سوال اٹھایا ہے کہ آخر بلوچستان ہی میں یہ فیصلہ کیوں سامنے آیا؟ ہمیشہ ان کی حب الوطنی پر ہی سوالیہ نشان کیوں لگایا جاتا ہے؟
بات تو بالکل درست ہے۔ آخر یہ فیصلہ کبھی پنجاب میں کیوں دیکھنے میں نہیں آیا؟ کسی پنجابی بیوروکریٹ کے دماغ میں یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ اپنے تمام افسران سے ہمیں ان کی حب الوطنی کا ثبوت حآصل کرنا چاہیے؟
مبشر زیدی ہی کی ٹوئیٹ کا جواب دیتے ہوئے ایک نوجوان نے لکھا کہ کچھ دنوں پہلے پنجاب یونیورسٹی کے ایڈمنسٹریشن میں ایک شخص نے بلوچ طالبِ علم کو کہا کہ آپ لوگ غدار اور پاکستان مخالف ہو۔ اس صارف عمران خان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں صرف بلوچ نہیں پشتون بھی آباد ہیں اور وہ خود بھی ایک پشتون ہیں لیکن کسی بھی پاکستانی شہری کے ساتھ ایسا رویہ رکھنا قابلِ مذمت ہے۔
ظایہر ہے کہ اس نوجوان نے کسی شخص کا نام نہیں لکھا تھا اس لئے ممکن ہے کہ اس میں مبالغہ ہو لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ ملک کے بڑے شہروں اور خصوصاً پنجاب میں بڑی تسلی کے ساتھ بلوچ سرداروں کو غدار قرار دے دیا جاتا ہے خواہ یہ بلوچ سردار وہ ہوں جنہوں نے نہ صرف ملک کا آئین بنانے میں مدد دی ہو بلکہ خود پاکستان بنانے کے عمل میں بھی اپنا حصہ ڈالا ہو۔ ان کی لڑائی کسی محکمے کے کسی افسر سے ہو جائے تو پورا ملک ان سے نفرت کرنے لگے۔ یہ اپنے حقوق مانگیں تو ان سے قربانی کا مطالبہ کیا جائے اور انہیں قتل کر دیا جائے تو یہاں نہ صرف مبارکبادیں دی جائیں بلکہ سربراہِ مملکت سرِ عام اعلان کرے کہ ہم نے اس کو مارا اور بالکل ٹھیک مارا۔ اس کے ارد گرد بیٹھے بڑے بڑے شہروں کے غریب دشمن، عوام دشمن، خود کو ریاست کے واحد قابلِ احترام شہری سمجھنے والے امرا تالیاں پیٹ کر اس ڈھٹائی کی داد دیں جس نے ملک کی سالمیت کو خطرے میں ڈال دیا ہو اور آج جس کی وجہ سے ایک چیف سیکرٹری صاحب کو یہ ہدایت نامہ جاری کرنا پڑ رہا ہے کہ آج سے بلوچستان کے تمام سرکاری افسران اپنی کالر ٹیون تبدیل کر کے 'پاکستان زندہ باد' کا نعرہ مقرر کر لیں۔
چیف سیکرٹری صاحب کو خود سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا بلوچستان کے عام شہری جو آئے روز اس قسم کے رویوں کا شکار بنتے ہیں، وہ اس نوٹیفکیشن کے بعد اپنا نظریہ تبدیل کر لیں گے؟ جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے صوبے کے وسائل پر ان کا حق تسلیم نہیں کیا جا رہا، ان کے لئے ریاست کی جانب سے تعلیم کے مواقع موجود نہیں، نہ صرف اپنے صوبے میں بلکہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں بھی انہیں جو وظائف میسر ہیں، ان کے لئے قوٹہ مختص ہے، اس کو ختم کیا جا رہا ہے، گوادر پورے ملک کی معیشت کے لئے گیم چینجر ہے لیکن یہاں پانی کی سہولت کے لئے مقامی شہری مسلسل حکومت سے برسرِ پیکار ہوں، روزگار کے لئے اپنا گھر بار چھوڑ کر دور دراز علاقوں میں جانا پڑتا ہو، صحت کی سہولیات ناپید ہوں، آبادی کا ایک بڑا حصہ واقعتاً ایک وقت کی روٹی بھی بمشکل حاصل کر پاتا ہو، وہاں یہ نعرہ کوئی موبائل پر سن بھی لے گا تو زیادہ سے زیادہ کتنا متاثر ہو جائے گا؟