عمران خان کی تبدیلی معذور افراد پر بجلی بن کر گری ہے

نوازشریف کے طرز حکومت اور سیاسی، معاشی اور سماجی پالیسیوں سے اختلاف نفرت کی حد تک تھا۔ نواز شریف کے بعد اب کی بار پیپلز پارٹی کی بجائے بڑی تبدیلی کی بازگشت تھی یعنی عمران خان کی وزارت عظمیٰ اور تحریک انصاف کی حکومت جو انقلاب لائے گی۔ یہ امید پاکستان کے ہر شہری کو تھی جو بے شک پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور دیگر پی ٹی آئی کی سخت جماعت کا حصہ تھا۔ تبدیلی ہر کسی کی خواہش تھی۔ معذور افراد میں بعض تو آئندہ اسمبلی میں جانے کی تیاری میں لگ چکے تھے کہ عمران خان کے عہد میں معذور افراد کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے گا۔ پھر معذور افراد اپنے فیصلے خود کریں گے۔ تحریک انصاف معذور افراد ونگ کے گروپ بن رہے تھے۔ معذور افراد این جی اوز سے نکل کر سیاسی پارٹیوں کا رخ کر رہے تھے۔

راقم نے بڑی کوشش کے بعد تحریک انصاف کی قیادت سے رابطہ کیا کہ تحریک انصاف معذور افراد ونگ کو منظم کیا جا رہا ہے تو اس کے لئے کیا معیار رکھا ہے۔ جواب آیا کہ کوئی ونگ نہیں ہے۔ پارٹی آئین کے مطابق معذور افراد کے ونگ کی کوئی گنجائش نہیں بنتی ہے۔ یہ کہا گیا کہ پارٹی کے نئے آئین میں معذور افراد کے ونگ کو شامل کیا جائے گا۔ عمران خان کی ہدایت ہے کہ معذور افراد کوقومی دھارے کا حصہ بنایا جائے۔



2019 آ جاتا ہے۔ تحریک انصاف کا نیا آئین تشکیل پاتا ہے۔ نئے آئین میں بھی معذور افراد کے ونگ کی گنجائش نہیں بنتی ہے۔ مطلب قصہ ختم ہے۔ معذور افراد کو صرف لالی پاپ دیا جاتا رہا ہے۔ سیاست ہے۔ کمزور طبقات کی گنجائش نہیں بن سکتی ہے۔ یہی تلخ حقیت ہے۔ معذور افراد نے حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے۔ قومی دھارے میں شمولیت کا خواب سراب ثابت ہوا۔ سیاست نہیں ملازمت کی ضرورت ہے۔ معاشی اور معاشرتی بحالی سے معذور افراد بہتر زندگیاں گزار سکتے ہیں۔

راقم نے روزگار کی فراہمی سمیت معذور افراد کے لے قومی اداروں کی تنظیم نو کے لئے کام کا آغاز کیا۔ وزیراعظم سمیت متعلقہ اداروں کے سربراہان کو خطوط لکھے اور سوشل میڈیا پر کمپین شروع کر دی تاکہ معذور افراد کو فوری ریلیف مل سکے۔ حکومت کے ابھی آٹھ ماہ گزرے ہیں۔ امید ابھی باقی تھی کہ گذشتہ روز حکومت کی جانب سے فیصلہ سامنے آیا کہ قومی کونسل برائے بحالی معذوراں سمیت مختلف محکمہ جات کو ختم کر دیا جائے۔

قومی کونسل برائے بحالی معذوراں کے حوالے سے عدالت عظمیٰ میں کیس زیرسماعت تھا کہ معذور افراد کی بحالی کیا اقدامات کیے ہیں اور کون کون سے اداروں میں کتنے کتنے معذورافراد ملازمت کر رہے ہیں۔ معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لئے مزید کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کو حالات سے آگاہ کرنے کے بجائے بیوروکریسی نے ملک میں معذور افراد کی فلاح کے لئے کام کرنے والی قومی کونسل برائے بحالی معذوراں کو ہی ختم کرنے کی سفارش کر دی۔



چند ماہ سے عدالت عظمیٰ کے روبرو یہ کیس زیر سماعت ہے کہ ملک میں معذور افراد کی فلاح و بہود کے لئے حکومت کی سطح پر کیے جانے والے کام اور اقدامات کی تفصیلات کیا ہیں اس کیس کی سماعت کے موقع پر وزارت تعلیم کے سیکرٹری اور اس کونسل کے چیئرمین ارشد مرزا متعدد بار عدالت عظمیٰ کے روبرو پیش ہو چکے ہیں اور عدالت عظمیٰ کو سرکاری سطح پر اٹھائے جانے والے اقدامات سے باقاعدہ آگاہ بھی کر چکے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حکومت نے وفاق کی سطح پر تمام وزارتوں اور محکموں سے یہ تفصیلات طلب کی ہیں کہ ان کے محکموں میں کام کرنے والے معذور افراد کی تعداد کیا ہے اور یہ سوال اس لئے اٹھایا گیا کہ حکومت نے اس کونسل کے ضابطے کے مطابق ہر سرکاری محکمے میں ملازمین کی کل تعداد کے 2 فیصد کے برابر قانونی طور پر معذور افراد کا کوٹہ طے کر رکھا ہے اور عدالت عظمیٰ یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ اس پر عمل درآمد کی تفصیلات کیا ہیں۔

عدالت عظمیٰ کو اس بات سے آگاہ کیا جا چکا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے تمام وفاقی سیکرٹریز کو ایک سرکلر کے ذریعے اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ اپنی وزارت اور محکمے میں معذور افراد کی تعداد کے بارے میں تفصیلات فراہم کریں تاکہ یہ تفصیلات عدالت عظمیٰ کے روبرو پیش کی جائیں لیکن دوسری جانب وفاقی سیکرٹریز کے ماہانہ اجلاس میں معذور افراد کی فلاح کے لئے کام کرنے والی قومی کونسل برائے بحالی معذوراں کو ختم ہی کر دینے کی سفارش کی گئی ہے۔

یہ کونسل ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے ضیاالحق کے دور میں بنائی گئی اور اس کونسل کے اختیارات اور طریق کار میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتری لائی گئی جس کے نتیجے میں ملک بھر میں معذور افراد کو معذوری سرٹیفکیٹ جاری کیے جانے لگے اور انہیں الگ سے شناختی کارڈ بھی جاری ہونے لگے جس کے ذریعے وہ سرکاری ملازمت کے لئے طے شدہ میرٹ کے مطابق اہل قرار پائے اور انہیں تمام ضروری مراعات اسی کونسل کے ذریعے ہی ملتی ہیں لیکن اب یہ کونسل ختم کر کے حکومت ملک بھر کے لاکھوں معذور افراد کو بے یار و مددگار چھوڑنا چاہتی ہے جبکہ اس کونسل کو ختم کرنے کے لئے کسی انتظامی حکم کی نہیں بلکہ ایک طے شدہ قانونی اور آئینی طریق کار ہی اختیار کرنا ہوگا جس کے لئے فیصلہ پارلیمنٹ سے لینا ایک قانونی تقاضہ ہے۔ اس کے بغیر یہ کونسل ختم نہیں ہوسکتی۔ بلکہ عدالت عظمیٰ میں کیس زیر سماعت ہونے کی وجہ سے حکومت کا یہ اقدام یا فیصلہ توہین عدالت کے زمرے میں بھی شمار ہو سکتا ہے۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔