پاکستان کے لیے اولمپکس میں انفرادی طور پر پہلا گولڈ میڈل جیتنے والے ارشد ندیم کی کہانی کوئی عام نہیں۔ یہ ایک مکمل کیس سٹڈی ہے کہ کیسے میاں چنوں کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے دیہاڑی دار مزدور کا بیٹا اولمپکس کی تاریخ کا ریکارڈ بنا گیا۔ آج ارشد ندیم کا نام پوری دنیا لے رہی ہے لیکن پاکستان میں کریڈٹ لینے والے میدان میں کود پڑے ہیں۔ بطور سپورٹس صحافی اس کے اس سفر کو بہت قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا، سکول میں نیزہ پھینکنے سے لے کر پیرس اولمپکس میں پاکستان کو پوڈیم پر لا کھڑا کرنے والے ارشد ندیم ایک سیلف میڈ سپرسٹار اتھلیٹ ہے۔
ارشد ندیم کو واحد سپورٹ یا تو اس کی اپنی فیڈریشن کی رہی یا سپورٹس بورڈ پنجاب اس سفر میں اس کی مدد گاہے بگاہے کرتا رہا۔ ارشد ندیم کامن ویلتھ گیمز سمیت کئی جگہ پہلے ہی ثابت کر چکا تھا کہ اولمپکس میں میڈل کوئی لا سکتا ہے تو وہ کوئی اور نہیں اور اسی چیز کو جانتے ہوئے کریڈٹ لینے والوں نے بجائے اس کے اپنے کوچ فیاض بخاری کو ساتھ بھیجتی خود جانا غنیمت جانا۔ خیر یہ ساری داستان سب کو معلوم ہے۔ بات انعامات کی ہے جو ارشد ندیم پر برس رہے ہیں جس کا حقدار بھی ہے۔
پنجاب حکومت نے دس کروڑ، سندھ نے پانچ کروڑ، کسی نے فلیٹ، کسی نے پلاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ وہ پرائیویٹ سیکٹر جس کو گلیمر یا کرکٹرز کے علاوہ کبھی کوئی نظر نہیں آیا آج ارشد ندیم کے لیے لاکھوں کا اعلان کر رہے ہیں۔ آپ ارشد ندیم کو کروڑوں دیں کوئی مسئلہ نہیں لیکن پنجاب حکومت اگر واقعی کوئی انعام دینا چاہتی تو سپورٹس بورڈ پنجاب میں ردی کی ٹوکری میں پڑی پی ٹی آئی دور کی سپورٹس پالیسی کو ہی اگر نافذ کروا دیتی اور سکول سپورٹس کو بحال کر کے نصاب کا حصہ بنا دیتی ہے تو ایک نہیں آنے والے وقت میں کئی میڈل آ سکتے ہیں لیکن یہاں آج ہر کوئی انعامات ہی انعامات نچھاور کر رہا جب اسے سب سے زیادہ ضرورت تھی کسی نے پوچھا تک نہیں تھا۔
نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
اب کریڈٹ لینے سب میدان میں کود رہے ہیں لیکن ارشد صرف اور صرف اپنی محنت سے یہاں تک پہنچا ہے۔ کوئی یوتھ فیسٹیول کوئی کچھ نہیں کسی نے کچھ نہیں کیا۔ وہ سکول سپورٹس کی پراڈکٹ ہے۔ آج بھی اگر ارشد ندیم کو مثال بنا کر سکول سپورٹس پر کام شروع کر دیا جاتا ہے تو پاکستان کو ہزاروں ارشد ندیم مل جائیں گے۔
آسٹریلیا کا سپورٹس کلچر پوری دنیا سے بہت بہت آگے ہے۔ دور دور گاؤں دیہات تک گراؤنڈز انفراسٹرکچر بہت ہائی ہے۔ لوکل سپورٹس میں بھی اسٹیڈیم ہاؤس فل، تین تین نسلیں ایک ہی ٹیم کو سپورٹ کرتی چلی آ رہی ہیں۔ بچہ پیدا بعد میں سوئمنگ کلاسزز پہلے شروع۔ سکول میں سوئمنگ لازمی جبکہ دوسری کئی ایک سپورٹس اپنی مرضی کی نصاب کا حصہ ہے۔ اتنے لوگ کرکٹ کو نہیں جانتے جتنا یہاں کی نیشنل سپورٹس رگبی کی طرز کا گیم جسے پاگلوں کی طرح دیکھتے اور کھیلتے ہیں، جس لیول کے سپورٹس لونگ ہیں یہ میڈل تو بہت کم، البتہ پاکستان نے اگر کچھ کرنا ہے تو آسٹریلیا کے سپورٹس سسٹم کو اپنائے بغیر ناممکن ہے۔
پاکستان میں سکول سپورٹس کئی دہائیوں سے ختم، یہاں پرائمری سکول بھی گراؤنڈز کے بغیر نہیں اور پاکستان میں میٹرک، انٹر تمام سکول ایک ایک بلڈنگ میں گراؤنڈز کا نام و نشان نہیں، حالانکہ اک وقت تھا کہ میٹرک کے لیے بورڈ سے سکول کی رجسٹریشن ہی تب ہوا کرتی تھی جب گراؤنڈ اپنی ہوتی تھی۔
ان تمام پہلوؤں پر آواز اٹھانا ہم سب کا حق بنتا ہے ورنہ جہاں آج سات جا رہے آنے والے وقت میں وائلڈ کارڈ کے علاوہ کچھ نہیں رہے گا۔ پاکستان میں سپورٹس سسٹم کو نئے سرے سے ری ڈیزائن کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ارشد ندیم کا سب سے بڑا انعام ہی یہی ہو گا کہ اس نے جو شمع جلائی ہے اس میں مزید ایندھن ڈالیں نہ کہ بلے بلے کروانے کی خاطر بس پیسے نچھاور کرتے جائیں۔