تین بار کا اولمپکس چیمپئن پاکستان ایک بار پھر اولمپکس سے باہر، ذمہ دار کون؟

تین بار کا اولمپکس چیمپئن پاکستان ایک بار پھر اولمپکس سے باہر، ذمہ دار کون؟
عہدوں کی لڑائی نے قومی کھیل کا جنازہ نکال دیا ہے۔ ایونٹس پہ جاؤ، ہارو، استعفیٰ دو اور اگلے ایونٹ پہ پھر سانپ بن کے ٹیم پر بیٹھ جاؤ۔ سچ پوچھیں تو ہاکی کی تباہی کا ذمہ دار صرف اور صرف سابق اولمپیئنز ہیں۔

منظور جونیئر پاکستان ہاکی ٹیم کے مایہ ناز کپتان رہ چکے ہیں۔ انہی کی قیادت میں پاکستان نے لاس اینجلس اولمپکس 1984 میں آخری بار اولمپکس کا ٹائٹل اپنے نام کر کے دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم لہرایا تھا۔ اب وہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کی سلیکشن کمیٹی کے سربراہ ہیں اور انہی کی بنائی ہوئی ٹیم ہالینڈ کے خلاف ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد اولمپکس کی دوڑ سے باہر ہوچکی ہے۔ یہ کتنے دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ تین بار کے اولمپکس چیمپئن گرین شرٹس مسلسل دوسری بار اولمپکس کے دوران ایکشن میں دکھائی نہ دے سکیں گے۔



مایوسیوں اور ناکامیوں کی نئی تاریخ رقم کرنے کے بعد قومی ٹیم پاکستان تو پہنچ چکی ہے لیکن ٹیم مینجمنٹ کی طرف سے وہی ماضی کا رٹا رٹایا سبق دوبارہ دہرایا جائے گا۔ اولمپکس کوالیفائنگ راﺅنڈ میں ٹیم کی شرمناک شکست پر مگر مچھ کے آنسو بہائے جائیں گے۔ یورپی ممالک کے اربوں کھربوں کے انفراسٹرکچر اور پاکستان میں گنتی کے چند آسٹروٹرف کی باتیں کی جائیں گی۔ قصہ مختصر ٹیم کی شکست کو اس انداز میں پیش کیا جائے گا کہ بھولی اور سیدھی سادی قوم کو کوالفائنگ راﺅنڈ میں شریک ہالینڈ کی ٹیم ظالم اور قومی ٹیم مظلوم دکھائی دینے لگے گی۔

اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو بیشتر ملکی محکموں کی طرح ہماری کھیلوں کا بھی اللہ ہی حافظ ہے۔ لیکن، یہ ہاکی کا کھیل ہی تھا جس نے ماضی میں ملک و قوم کی خوب لاج رکھی۔ ہمارے کھلاڑیوں نے دنیا بھر میں اپنے کھیل کی ایسی دھاک بٹھائی کہ گرین شرٹس انٹرنیشنل مقابلوں میں حصہ لینے کے لئے جاتے تو شریک ٹیموں کے کھلاڑیوں کے ہاتھ پاﺅں گراﺅنڈ میں اترنے سے قبل ہی پھول جاتے تھے۔

شب خون مار کر آنے والے سیکرٹری جنرل آصف باجوہ جن کو پی ایچ ایف کے اندر ہنگامی لینڈنگ کرائی گئی۔ انہوں نے اولمپیئنز فورم میں موجود منظور جونیئر، خواجہ جنید اور دیگر سے ملاقاتیں کرتے ہوئے ساتھ چلنے اور ہاکی کو نئے سرے سے شروع کرنے کے خواب قوم کو دکھاتے ہوئے انٹری لی۔ مگر، وہی منظور جونیئر اور خواجہ جنید جو اولمپیئنز فورم میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کا تختہ پلٹنے کی باتیں کرتے تھے۔ وہ عہدے ملنے پر صدر ہاکی فیڈریشن برگیڈیر (ر) خالد سجاد کھوکھر کے گن گانے لگے۔

سیکرٹری آصف باجوہ ایک طرف فنڈز کی عدم دستیابی کا رونا روتے ہیں، تو دوسری طرف اولمپکس کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنے گئی ٹیم کے ہمراہ فیملی سمیت سیر سپاٹا کرنے بھی پہنچ جاتے ہیں۔

پی ایچ ایف کے سابق و موجودہ عہدیداران اور سابق اولیمپئنز اس حقیقت سے کیوں نظریں چرائے بیٹھے ہیں کہ یہ ہاکی کا کھیل ہی ہے جس نے آپ سب کو معاشرے میں بلند مقام دیا، کروڑوں روپے کے بینک بیلنس اور قیمتی پلاٹوں کا مالک بنایا، باعزت روزگار دیا اور کینیڈا، انگلینڈ، روس، آسٹریلیا سمیت دنیا بھر میں شہریت دلوائی۔ پھر بھی آپ سب نے اس کھیل کی حقیقی معنوں میں خدمت کرنے کے بجائے اپنے ذاتی فائدوں کو ترجیح دینے کی پالیسی کو اپنایا۔

ملکی کھیلوں کا جو حال ہے، وہ تو سب کے سامنے ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ 22 کروڑ سے زائد باسیوں کی سرزمین باصلاحیت کھلاڑی پیدا کرنے میں بانجھ دکھائی دیتی ہے۔ جبکہ 50، 60 لاکھ اور ایک کروڑ تک کے آبادی کے بیشتر ممالک اولمپکس سمیت دنیا کے بڑے ایونٹس میں میڈلز جیت کر اپنے ملک کی نیک نامی کا سبب بنتے ہیں۔

واحد کھیل ہاکی ہی بچتا تھا، جس سے قوم کو عالمی ایونٹس میں میڈلز کی امید ہوتی تھی، سو اس کا بھی بیڑہ غرق کر دیا گیا۔ قومی کھیل سے بے تحاشہ محبت کرنے والے پوچھتے ہیں کہ دیوار چین، فلائنگ ہارس کے القاب سے پکارے جانے والے کھلاڑی کہاں گئے؟ کہاں ہیں وہ اے جی خان، شاہ رخ، بریگیڈیئر حمیدی، ڈاکٹر غلام رسول چوہدری، نصیر بندہ، انوار خان، منیر ڈار، ذاکر سید، خالد محمود، استاد سعید انور، اشفاق احمد، رشید جونیئر، شہناز شیخ، منظورالحسن، اختر رسول، منظور جونیئر، سمیع اللہ، حسن سردار، شاہد علی خان، حنیف خان، اصلاح الدین صدیقی، شہباز سینئر، سہیل عباس؟ کہاں گئے وہ دن جب میچ کے دوران پاکستانی کھلاڑیوں کے اللہ اکبر کے نعرے سٹیڈیم میں موجود ہزاروں تماشائیوں اور ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھے کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں کو گرما دیتے تھے۔ کہاں گئے وہ دن جب مخالف ٹیموں کے کھلاڑی تمہارا رعب و دبدبہ دیکھ کر مقابلے سے پہلے ہی ہمت ہار بیٹھتے تھے۔ کہاں گئے وہ دن جب دنیا فخر سے کہتی تھی کہ اگر ہاکی سیکھنی ہو تو پاکستان جاﺅ۔

جب نیتوں میں ہی کھوٹ ہو، جب اولین مقصد ہی دنیا بھر کے سیر سپاٹے کرنا، ڈالرز اور پاﺅنڈز کمانا ہو تو وہ ابابیل کے لشکر اور بدر کے فرشتے کیوں کر ہماری مدد کے لیے آئیں گے۔

گرین شرٹس دوسری بار اولمپکس کی دوڑ سے باہر ہوچکے ہیں۔ عالمی رینکنگ میں بھی ان کا سترہواں نمبر ہے۔ اب قومی کھیل کی مزید تنزلی کا سفر کہاں تک جاری رہتا ہے؟ اس کا ہمیں اور آپ کو انتظار رہے گا۔

لکھاری نے جامعہ گجرات سے ابلاغیات کی تعلیم حاصل کی ہے اور شعبہ صحافت میں بطور سپورٹس رپورٹر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔