کرونا سے متاثرہ شخص کے صحتیاب ہونے کے بعد بھی وائرس پھیپھڑوں کی گہرائی میں موجود رہتا ہے، تازہ تحقیق میں انکشاف

کرونا سے متاثرہ شخص کے صحتیاب ہونے کے بعد بھی وائرس پھیپھڑوں کی گہرائی میں موجود رہتا ہے، تازہ تحقیق میں انکشاف
چین میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ہسپتال سے صحت مند قرار دے کر گھر بھیجے جانے والے کووڈ 19 کے مریضوں میں کرونا وائرس مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا بلکہ صحتیاب ہونے والے مریض کے پھیپھڑوں کی گہری میں موجود رہتا ہے جس کی تشخیص روایتی جانچ کے طریقوں سے نہیں کی جا سکتی۔

چین کی آرمی میڈیکل یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق کے نتائج منگل کے روز ایک تحقیقی جریدے میں مقالے کی صورت میں شائع ہوئے جن میں اس بات کا اندازہ لگایا گیا کہ کرونا وائرس سے صحتیاب ہونے والے مریضوں کی بڑی تعداد اس وائرس سے دوبارہ متاثر کیوں ہو رہی ہے۔

مذکورہ تحقیق کرنے والی ٹیم کے سربراہ نے بتایا کہ ہم نے اپنی تحقیق میں ایک ایسے مریض کے پھیپھڑوں میں کرونا وائرس کی موجودگی کا پیتھولوجیکل ثبوت فراہم کیا ہے جس کا صحتیاب ہونے کے بعد کرونا وائرس ٹیسٹ لگاتار 3 بار منفی آیا تھا۔

ماہرین نے تحقیق کے نتائج سامنے آنے کے بعد مشورہ دیا کہ وائرس سے بچاؤ کے لیے بہتر انتظامات کلینیکل رہنما اصولوں میں بہتری کی ضرورت ہے۔

اس تحقیق میں ایک 78 سالہ خاتون کی لاش کا تجزیہ کیا گیا جو فروری میں کرونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد صحتیاب ہو گئی تھیں اور ان کا کرونا وائرس ٹیسٹ لگاتار 3 بار منفی آیا تھا۔ تاہم چند دن بعد دورہ پڑنے سے خاتون کا انتقال ہو گیا تھا۔ ماہرین نے اس خاتون کی لاش کا تجزیہ کیا جس سے پتا چلا کے خاتون کے پھیپھڑوں کی گہرائی میں کرونا وائرس موجود تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد دوبارہ اس وائرس کا شکار کیسے ہو جاتے ہیں۔

واضح رہے کہ کرونا وائرس کی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جبکہ 2 لاکھ 28 ہزار سے زیادہ افراد اس وبا کی نذر ہو چکے ہیں۔

پاکستان میں بھی متاثرین کی مجموعی تعداد 16 ہزار 329 سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ 361 افراد انتقال کر چکے ہیں۔

اس عالمی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے مختلف طرح کی پابندیاں اور لاک ڈاؤن جیسے اقدامات کیے گئے ہیں۔ تاہم اس وائرس کے کیسز میں روزانہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جبکہ اموات کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔

پاکستان میں پہلا کیس 26 فروری کو بیرون ملک سے آنے والے شخص میں رپورٹ ہوا تھا تاہم اس کے بعد سے مقامی طور پر منتقلی کے کیسز میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔