کووڈ 19: کراچی لاک ڈاؤن موثر کیوں نہیں؟

کووڈ 19: کراچی لاک ڈاؤن موثر کیوں نہیں؟
کراچی لاک ڈاؤن سندھ حکومت کا بہترین قدم تصور کیا جا رہا ہے مگر ایک بڑے شہر کو لاک ڈاؤن کرنے کے حوالے سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے، بہت سے بنیادی معاملات کو دیکھنے کی اور توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے، ترجیحات کو ترتیب دیا جاتا ہے مگر کراچی میں یہ سب کچھ نظر انداز کیا گیا۔ 2 کروڑ لوگوں کے شہر اور پاکستان کے معاشی دارالحکومت ہے کو لاک ڈاؤن کرنے کے لئے کوئی حکمت عملی ترتیب نہیں دی گئی-

کووڈ۔19 معیشتوں پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہا ہے۔ شہر کراچی کے لیے خاص خطرہ یہ ہے کہ اس شہر کی 62 فیصد آبادی کچی آبادیوں اور گوٹھوں میں رہائش پذیر ہے اور اکثر لوگ غیر رسمی شعبوں سے وابستہ ہیں۔ کراچی کے مکین اب تک Covid-19 کے تباہ کن پھیلاؤ اور ممکنہ اثرات سے مکمل آگاہ نہیں مگر ذیادہ افسوسناک یہ ہے کہ حکومت نے بھی اس نقطہ نظر سے سوچنے کی زحمت نہیں کی۔ نہ ہی کسی طرح کی آگاہی مہم کا اہتمام کیا۔ ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود شہر کراچی کے مکین بے یقینی کی کیفیت کا شکار ہیں کیونکہ نہ لاک ڈاؤن موثر نظر آرہا ہے اور نہ ہی مستقبل کی کوئی حکمت عملی و تدبیر۔

بے اختیار شہری حکومت

شہری حکومت کا رابط براہ راست عوام سے نچلی سطح تک ہوتا ہے مگر کراچی میں شہری حکومت کو کسی معاملے میں کوئی اختیار نہیں۔ عوام میں آگاہی کا معاملہ ہو یا خوراک کی تقسیم کا، یہ صرف وارڑذ اور یو سی کی سطح پر ممکن ہے مگر سندھ حکومت نے اس اہم پہلو پر توجہ نہ دی۔ مؤثر لاک ڈاؤن کے لیے شہری حکومت بہت تیزی سے، شہری نمائندہ تنظیموں اور عوام کو اعتماد میں لیتی ہے۔

میڈیکل اسٹاف کے ساتھ ساتھ، قبرستانوں میں کام کرنے والے اسٹاف کے لئے بھی احتیاطی سامان کی فراہمی ضروری ہے اور کراچی میں قبرستان کا محکمہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پاس ہے اور میئر کراچی کے ماتحت ہے۔ اب تک قبرستان کے محکمے کو اس پورے معاملے میں کہیں شامل نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے مستقبل میں تدفین سے متعلق مسائل سامنے آئیں گے۔

صاف پانی کی عدم دستیابی اور ہاتھ دھونا

لاک ڈاؤن کا مقصد Covid-19 سے لڑنا تھا تو صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا حکومت کی اولین ترجیح ہونا چاہیے تھی مگر ایسے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے- کراچی کے مکینوں کو ضروریات زندگی کے لیے پانی کی کمی کا سامنا ہے اور ان کے لیے 20 سیکنڈز تک بار بار ہاتھ دھونا ممکن نہیں۔

شہر میں بے گھر افراد، جائیں تو کہاں؟

کراچی کے بہت سے شہری گھروں میں رہنے کےمتحمل نہیں۔ سیکڑوں بے گھر افراد اور کنبے کراچی میں دیکھے جاسکتے ہیں جو اپنی راتیں کھلے آسمانوں کے نیچے، فٹ پاتھوں پر گزارتے ہیں۔ ان کی اصل تعداد کے لئے کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں۔

جب حکومتی ادارے لوگوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایات کر رہے ہیں تو ان حالات میں یہ بے گھر افراد کہاں جائیں؟

حکومتی دعوے کے مطابق بہت سے بے گھر افراد کو ایدھی فاؤنڈیشن جیسے اداروں میں بھیجا گیا مگر ایسی حقیقت سامنے نہیں آئی۔ پچھلے سال شہر میں بے گھر ہونے والی آبادی میں نمایاں اضافہ ہوا، کیونکہ تجاوزات کے خلاف مہم کے دوران متعدد مکانات کو مسمار کر دیا گیا جس سے بہت سے لوگ بے گھر ہوئے۔ ان میں کراچی سرکلر ریلوے سے ملحقہ آبادیاں بھی تھیں، جس کی بڑی مثال قائداعظم کالونی ہے، جہاں 100 سے زائد خاندانوں کو بے گھر کیا گیا۔

گنجان آبادی والے علاقے اور سماجی فاصلے کا تصور

گنجان آبادی والے علاقوں میں ایک کمرے میں 8 سے 10 افراد رہنے پر مجبور ہیں ایسے میں وہ کسی طور سماجی فاصلہ نہیں رکھ سکتے۔ یہ مسئلہ صرف کچی آبادیوں میں نہیں بلکہ متوسط طبقے کی آبادی والے علاقے جیسے کہ لیاقت آباد، ناظم آباد میں بھی ہے۔

شہر کراچی میں رات آٹھ بجے دکانیں بند ہونے سے 10 منٹ پہلے کا منظر – (تصویر: محمد توحید)


غیر رسمی معیشت سے وابستہ سفید پوش افراد اور خوراک کی فراہمی

لاک ڈاؤن سے قبل یہ جائزہ لینا ضروری تھا کہ لاک ڈاؤن کا ان افراد پر کیا اثر پڑے گا جو غیر رسمی معیشت سے وابستہ ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر روزی کماتے ہیں۔ اس اہم نکتے کو نظر انداز کر دیا گیا اور غیر رسمی معیشت سے وابستہ سفید پوش افراد کے لئے خوراک و راشن کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ ایسے حالات میں وسائل محدود ہونے کے باوجود کراچی کے فلاحی اداروں نے لوگوں کو راشن کی فراہمی کا انتظام کیا مگر اب ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد ان فلاحی اداروں کے پاس بھی وسائل ختم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔

دوسری جانب لوگوں کے لئے مشکل ہے کہ اپنی عزت نفس کو بچائیں یا اپنے بچوں کو بھوکا سلائیں؟

پچھلے دو سالوں میں، تجاوزات کے خلاف مہم کے نام پر شہر کراچی میں غیر رسمی معیشت کو بدترین نقصان پہنچا۔ شہر کی 20 بڑی اور درجنوں چھوٹی مارکیٹوں میں 11 ہزار سے زائد دکانوں، پتھاروں، کیبن کو مسمار کیا گیا جبکہ ٹھیلے لگانے والے ہزاروں افراد کو ان کی جگہوں سے بے دخل کیا گیا-

صحت کی بنیادی سہولیات کی کمی

لاک ڈاؤن کے بعد کراچی میں صحت کی بنیادی سہولیات جو پہلے ہی کم ہیں مزید کم ہوگئیں کیونکہ کراچی کے بڑے سرکاری ہسپتال، سول ہسپتال اور جناح ہسپتال میں او-پی-ڈی بند کر دی گئی۔ کم آمدنی والا طبقہ اس وقت پریشانی کا شکار ہے کہ علاج کے لئے کہاں جائیں؟

غیر تربیت یافتہ قانون نافذ کرنے والے ادارے

بدترین معاملہ جو سامنے آیا وہ کراچی کی پولیس کا شہریوں کے ساتھ رویہ ہے۔ اول تو پولیس کے محکمے کو یہ سمجھانا اور ان کی تربیت کرنا ضروری تھا کہ آخر یہ لاک ڈاؤن کیا کیوں جا رہا ہے؟ کراچی کے علاقے کھارادار میں پولیس نےکئی افراد کو موبائل میں بھر لیا کیونکہ وہ Covid-19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کیے جانے والے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کر رہے تھے- یہ علیحدہ بات ہے کہ پولیس کی موبائل میں بھرے جانے کی بعد، ان میں سے کسی ایک کے سبب، سب کے سب Covid-19 کے پھیلانے والے بن گئے ہوں۔

لاک ڈاؤن کے ابتدائی ایام میں کراچی میں پتنگ کی دکان کامنظر- ( تصویر : محمد توحید)

اربن پلانر، ریسرچر کراچی اربن لیب آئی بی اے