افغان طالبان کی واپسی پر حقائق کی دنیا میں جئیں

افغان طالبان کی واپسی پر حقائق کی دنیا میں جئیں
نیٹو ممالک کی افواج کا انخلا تقریباً مکمل ہونے کے قریب ہے اور اس دوران افغانی حکومت اور فوج کو بھاگ کر طالبان نے ملک کے کثیر اور اہم حصہ پر قبضہ کر لیا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر بیس برس بعد والا طالب مختلف ہو گا یا اس کی سوچ بھی ویسی ہی شدت پسند ہو گی جس میں جبر سے دین کو نافذ کیا جاتا ہو، جس میں عورت کو زمیں میں گاڑ کر مردوں سے پتھر مروائے جاتے ہوں ،اس کو محض بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھا جاتا ہو اور جس میں اپنی تشریح کردہ شریعت کو بزور طاقت نافذ کیا جاتا ہو۔

ابھی مجھے ان پاکستانیوں پر بھی کافی حیرت ہو رہی ہے جو افغانستان میں طالبان کے آنے ہر خوشی سے نہال ہو رہے ہیں مگر جب ان سے طالبان کی طرز پر پاکستان میں حکومت قائم کر کے ویسے ہی قوانین کے نفاذ کا پوچھا جائے تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔ ویسے اس بات کا ایک اور حل بھی موجود ہے کہ ایسے افراد کو چاہیۓ کہ طالبان کی اسلامی حکومت کے تحت زندگی بسر کرنے کے لیۓ افغانستان کا رخ کر لیں،ان کو خود ہی آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔ اگر ان سے پاکستانی طالبان کا پوچھا جائے تو کچھ تو خاموشی کی زبان میں ان کے بھی حامی ہیں جبکہ کچھ ان کو بیڈ طالبان اور افغانی طالبان کو گڈ طالبان قرار دے رہے ہیں۔ جناب طالبان تو طالبان ہیں اس میں گڈ اور بیڈ کہاں سے آ گیا۔ دونوں گروپ ہی اپنے طور پر شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں۔

ابھی تک تو افغانی طالبان نے دنیا کو یہی باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اقلیتوں کا تحفظ کیا جائے گا،عورت کو گھر میں بند نہیں رکھیں گی بلکہ شریعت کی حدود میں رہ کر تعلیم اور روزگار کی اجازت دیں گے۔ بنیادی حقوق اور آزادی کا احترام کیا جائے گا۔اب اس بات کا اندازہ تو تب ہو گا جب شریعت کی حدود کا تعین ہو گا۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور اتحادی افواج افغانستان سے نکلنا چاہ رہے تھے اور اس سلسلہ میں طالبان سے صدر ٹرمپ معاہدہ کر چکے تھے کہ اس سال افواج کا انخلا ہو جائے گا۔

اب اگر وہ معاہدہ کے بعد افغانی حکومت اور کاغذی فوج کو بھگانے کے بعد وہ ملک پر تقریباً قابض ہو چکے ہیں تو عالمی برادری کو بھی چاہیۓ کہ ان کو تھوڑا وقت دے کر دیکھیں کہ وہ انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بناتے ہوئے عورتوں کو مناسب حقوق دیتے ہیں یا محض زبانی وعدوں تک ہی رہتے ہیں۔اس کے علاوہ وہ منشیات کی کاشت پر بھی قابو پاتے ہیں یا نہیں۔ ہم میں سے وہ پاکستانی جو کہ افغانی طالبان کی حمایت میں بھنگڑے ڈال ڈال کر خوشی سے نہال ہو رہے ہیں ان کو چاہیۓ کہ اپنے مسائل پر توجہ دیں اور اس بات کو یاد رکھیں کہ طالبان آپس میں متحد ہیں اور افغانی طالبان کی واپسی سے پاکستان میں شریعت کے طالب اور سیکیورٹی اداروں پر حملہ کرنے والے طالبان کے بھی دوبارہ ابھرنے اور طاقت پکڑنے کا امکان بہرحال موجود ہے۔

ایک صاحب کسی پروگرام میں تجزیہ کر رہے تھے کہ پاکستانی طالبان کے لیڈروں کی واپسی کا تقاضہ بھی افغانی طالبان سے کیا جا سکتا ہےتو جناب یہ تو بھول جائیں کہ ایسا تقاضا کرنے سے آپ کو پاکستانی طالب رہنما مل جائیں گے۔اگر یاد ہو تو 2001 میں اسامہ کو واپس کرنے کی بجائے پورے ملک کو طالبان نے کھنڈر بنوانا زیادہ پسند کیا تھا۔ وہ اپنے مہمان یا جو ان کی مدد کرے اس کو کبھی بھی اس کے دشمن کو واپس نہیں کرتے۔اس لیۓ بہتر ہے کہ ہم جشن کی کیفیت سے باہر نکل کر حقائق کی دنیا میں جئیں۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔