پاکستان کو اس کے سرکاری نام کی نسبت سے عالمی سطح پر ایک اسلامی جمہوری ریاست کی پہچان رکھنے کا شرف حاصل ہے جس کی بنیاد اس کی آزادی کے حصول کی تحریک ہے جو آج بھی ہمارے آئین کے دیباچے کا بنیادی جز ہے جس کے تحت پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں بنایا جا سکتا۔ یوں ہمارا آئین ہمیں قومی سطح پر اسلامی تشخص اپنانے کا پابند بھی ٹھہراتا ہے جس کا اطلاق کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اخلاقی و شرعی طور پر ہی نہیں بلکہ آئینی و قانونی لحاظ سے بھی قومی اور عالمی سطح پر اسلام کی روح سے ہم آہنگ تاثر کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہیں۔ جس کا احساس سرکاری سطح سے لے کر عوامی سطح تک اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جس میں قانون کے اطلاق کو یقینی بنانے والے اداروں، اسلامی نظریاتی کونسل اور مذہبی حلقے کے علماء کا اہم کردار بنتا ہے۔
مگر ہمارے ہاں اس کے برعکس سیکولر دکھنے کی کوشش ایک فیشن بنتی جا رہی ہے جو ہماری اندر کی نفسیاتی کمزوریوں کی طرف نشاندہی ہے جس کی بنیاد ہماری ان سوچوں کی عکاسی ہے جنہوں نے ہمارے اندر مذہب، تعلیم اور نظریات کی بنیاد پر گہری خلیجیں حائل کر رکھی ہیں۔ ہم اپنے اپنے شعبے، کام اور عمل میں خواہ سیاست ہو یا رسومات، مذہب کے نام پر اسلامی ٹچ تو دینا چاہتے ہیں لیکن عملی طور پر ہم اس کی تعلیمات پر عمل کو دقیانوسی سمجھتے ہیں جو ہماری معاشرتی تباہی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ ہم مسلمانوں کی شناخت تو رکھتے ہیں مگر شخصیت نہیں۔ حالانکہ اسلام کی تعلیمات تو مثالی ہیں جو ایک مثالی معاشرہ اور جمہوری ریاست بننے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں بشرطیکہ ہمیں اس کا ادراک ہو۔ ہم اگر اسلامی اصولوں کو اپنی جمہوریت اور سیاست کا حقیقی معنوں میں حصہ بنا لیں جن میں اقلیتوں کے حقوق سے لے کر حکومت سازی، احتساب کے عمل اور برابری کو بنیادی شرط رکھا گیا ہے، تو دنیا میں ایک نمونے کے طور پر اسلامی جمہوری ریاست ہونے کا شرف حاصل کر سکتے ہیں جو اسلامی دنیا ہی نہیں بلکہ سیکولر ریاستوں کے لئے بھی بہترین گورننس کے طور پر ایک مشعل راہ ہو۔
قومی سطح پر اسلامی تشخص کے بگاڑ کی کئی ایک وجوہات میں سے بنیادی وجہ فرقہ واریت بھی ہے جس کی بنیاد اسلامی تعلیمات کی غلط تشریح ہے جس میں ہمارے مذہبی پیشواؤں کے ماحول اور ذاتی خواہشات کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ ہمارے ماحول کے اسلامی تعلیمات پر اثرات سے دین کی تشریحات نے ہمیں ہماری خواہشات اور ماحول کی بنیاد پر تقسیم کر کے ہمارے درمیان خلیجیں حائل کر دی ہیں۔ خطابت اور بلاغت کے عقب میں معاشرے کی تشکیل کے بجائے اسے تباہ کیا جا رہا ہے۔ معاشرے کے اس اہم کردار کی اصلاح کے بغیر امید افزا بہلوؤں کی تلاش ممکن نہیں۔ ناصرف مذہبی حلقوں کے درمیان بلکہ رسمی اور دینی تعلیم رکھنے والوں کے درمیان بھی ضد کی بنیاد پر یہ خلیجیں مزید گہری ہو رہی ہیں۔
یہ جو ایک دوسرے کو کافر اور مشرک کہنے کا رواج پنپ چکا ہے، یہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں ہر ایک کو اس کے اپنے ایمان، عبادات اور معاملات کو ٹھیک کرنے کے احکامات اور کسوٹی مہیا کی گئی ہے مگر کسی فرد کو دوسرے فرد کے ایمان اور عبادات کو پرکھنے کا کوئی اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ اس کی بنیاد پر شرک اور کفر کے فتوے جاری کرتا پھرے۔ یہاں سب اپنے ایمان کو کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے دوسروں کے ایمان کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ علماء کے عمل سے شروع ہوا ہے۔ ایک فرقے کا مولوی جب دوسرے فرقے کے مولوی سے نفرت کروا رہا ہوگا تو معاشرے میں فتور پھیلنے کے علاوہ توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے؟ بلکہ یہی عمل حکومت کے انتظامی اور عدل کے امور کے دائرہ کار و اختیار میں دخل اندازی کا موجب بن رہا ہے۔ اور سوسائٹی اسی سوچ کے تحت ایک ایسا پریشر گروپ بن چکی ہے کہ انتظامیہ اور عدلیہ ان کے دباؤ کی وجہ سے ان نظریاتی دہشت گردوں کو حکومت گرفتار کرنے اور عدلیہ ان کے خلاف فیصلہ دینے سے گھبراتی ہے اور توہین مذہب کے مقدمے سالہا بغیر کارروائی کے پڑے رہتے ہیں۔ اگر ریاست کا آئین و قانون کسی کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی پر دادرسی کا طریقہ کار بھی مہیا کرتا ہے جس کو اس کی مطابقت سے ہی منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے نا کہ افراد یا گروہ کی خواہشات اور دباؤ کے تحت۔
اگر ہم اسلامی تعلیمات کے صحیح تصور کو سمجھیں تو توحید، رسالت اور ریاستی امور کی بالترتیب اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے اور ایک اسلامی ریاست کے امیر کی اطاعت کو بھی حکماً لاگو کیا گیا ہے۔ اگر اسلامی تعلیمات کی صحیح تشریح اور معاشرے کی اسلامی اقدار پر تشکیل ہوئی ہوتی تو آج جو یہ آئے دن مذہب کے نام پر احتجاج، ہڑتالیں، توہین رسالت اور مذہب کے نام پر قتل و غارت کی جاتی ہے یہ کبھی بھی نہ ہوتی۔
کسی بھی مذہبی یا انسانی حقوق کی پاسداری کا قانون فرد یا گروہ کی خواہشات کے تابع نہیں چھوڑا جا سکتا اور اس بارے ہم قومی سطح پر اسلامی تشخص کی تباہی کا نقصان بھی اٹھا رہے ہیں جو کبھی اپنی ہی قومی املاک کو جلا کر تو کبھی انسانی جانوں کے ضیاع تو کبھی دوست ممالک سے مہمانوں کی جانوں کو سرعام ضائع ہونے سے ملکی و قومی غیرت و حمیت کا جنازہ نکلتے ہوئے عالمی سطح پر رسوائی سمیٹتے ہوئے۔
جس ماحول کے اندر ہمارے معاشرے میں اسلامی تعلیمات دی جاتی ہیں ان کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اس نظام کے اوپر اٹھنے والے اخراجات صدقہ، خیرات اور زکوٰۃ کے پیسے سے ہوتے ہیں جس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس نظام کے اندر معاشرے کے زیادہ تر مالی وسائل سے محروم طبقات کی شرکت رہی ہے جس کا غالب تاثر آج بھی موجود ہے اور دوسری طرف مالی وسائل سے آسودہ حال طبقہ دین کو سمجھنا ضروری نہیں سمجھتا اور کردار سازی کا عمل دونوں اطراف میں ہی انتہائی ابتری کا شکار ہے۔ تکبر، حسد اور نفرت دونوں اطراف میں انتہا کو چھو رہی ہے۔ ایک طرف بے بسی نے قناعت کا روپ دھارا ہوا ہے تو دوسری طرف آسودگی نے کمینگی کو بھی مات دی ہوئی ہے۔ ایک دوسرے کو اس صورت حال کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ مذہبی طبقہ دنیا داروں اور آزاد خیالوں کو بے دین سمجھتا ہے اور ان کو سیکولر ہونے کے طعنے دیے جاتے ہیں جبکہ دنیا داروں کی طرف سے مذہبی طبقات کو تنگ نظر، بنیاد پرست اور انتہا پسند کہا جاتا ہے جس سے نقصان ہمارے نظریات، مذہب اور عالمی سطح پر ابھرنے والے قومی تشخص کا ہو رہا ہے۔ آسودہ حال سمجھتے ہیں کہ دین کی تعلیم کا حصول معاشی طور پر محروم لوگوں کا کام ہے۔
یوں گمان ہوتا ہے کہ جیسے اسلام کی تعلیمات دینے والوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر دین کو دنیا کے معاملات اور دنیا داروں سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے جس کا مقصد شاید ان کو حاصل صدقہ خیرات اور زکواۃ کے استعمال سے معاشرے کی تشکیل کے دوسرے امور سے دور اور بے دخل رکھنا تھا جس کی پاداش میں دنیا داروں ان کے معاملات، دین کے علم اور دوسرے علوم کے درمیان ایک لمبی خلیج حائل کر دی گئی۔ یہاں تک کہ دوسرے شعبہ جات کی تعلیمات کو ہی اسلامی تعلیمات کے خلاف پیش کرتے رہے جس سے آج ہمارے اکثریتی عوام کی یہ سوچ ہے کہ دین کی تعلیمات کے علاوہ دوسرے علوم کا انسان کی صرف دنیاوی زندگی سے تعلق ہے اور اس کا انسان کی آخرت کی زندگی میں کوئی فائدہ نہیں جو کہ ناصرف اسلامی تعلیمات کے بنیادی تصور کے ہی خلاف ہے بلکہ انسانی عقل اور شعور کے تقاضوں پر بھی پورا نہیں اترتا۔
ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسلام میں حقوق العباد کی کیا اہمیت ہے؟ حقوق العباد کے الفاظ انسانیت کے رشتے کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ آج ہمارے رویوں پر اگر غور کیا جائے تو یہ انسانیت کو یکسر نظرانداز کیے ہوئے ہیں۔ ہماری ان تنگ نظریوں میں کہیں ذاتی مفادات قومیت پر حاوی دکھائی دیتے ہیں تو کہیں قومیت اور نظریات انسانیت کے رشتوں پر بھاری حالانکہ دنیا کے تمام مذاہب اور افکار نے انسانیت کے رشتوں کو اپنی تعلیمات کی بنیاد بنا رکھا ہے۔ ہمارے نبی آخرالزمانﷺ نے بھی اپنی امت پوری انسانیت کو کہا ہے، اسلام نے انسانیت کو مخاطب کیا ہے اور جبر کی نفی کرتے ہوئے اس کو قبول کرنے والوں اور انکار کرنے والوں کی نویدوں اور وعیدوں کے باوجود حقوق العباد پر کسی بھی دوسرے تعلق کو حاوی نہیں ہونے دیا۔ مسلمانوں کو اپنی ریاستوں کے اندر اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کا پابند ٹھہرایا ہے۔ اسلام نے حقوق العباد کی عالمگیریت کو محترم ٹھہرایا ہے بلکہ انسانوں کے علاوہ جانوروں جہاں مذاہب اور نظریات کی شرائط لاگو ہی نہیں ہوتیں، ان کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں بھی جوابدہ ٹھہرایا ہے۔
آج اگر ہمیں بین الاقوامی سطح پر بنیاد پرست اور انتہاپسند سمجھا جاتا ہے تو اس کے پیچھے کارفرما ہمارے اجتماعی اعمال سے ابھرنے والا تاثر ہے جس کا اندازہ ہماری نفسیات سے بخوبی عیاں ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی اسلام یا اسلامی شعائر کے خلاف کوئی بات کرے تو ہم اپنے ہی ملک کے اندر احتجاج کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں اور اپنی ہی جان و مال اور املاک کو نقصان پہنچا کر سکون تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ہمیں اس بات کا کوئی احساس نہیں کہ یہ نقصان ہماری اپنی ہی جانوں، مال اور املاک کا ہے جس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہم عقل شعور سے خالی جذبات رکھتے ہیں، ہمیں فائدے یا نقصان کے اندر کوئی تمیز نہیں اور نہ ہی ہمارے اندر قومی سطح پر کوئی رحم دلی کا عنصر پایا جاتا ہے جس سے ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری اور اپنی ذمہ داریوں کے پورا کرنے کے فقدان کی سوچ کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔
حرمین شریفین میں عالمی اتحاد بین المسلمین کا ماحول ہونے کے باوجود اگر وہاں مسلمانوں کے رویوں اور عمل کے ذریعے سے ان کے معاملات پر نظر دوڑائیں تو اکثریت کی حالت اطیمنان بخش دکھائی نہیں دیتی۔ اکثریت کے اندر وہاں بھی ایثار نظر نہیں آتا، یہاں تک کہ ان کے اٹھنے بیٹھنے کے انداز سے بھی تنگ نظری جھلکتی دکھائی دیتی ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ وہاں کی انتظامیہ کی بے مثال خدمت اور انتظامی کوششوں کے باوجود راستوں کو بند کرنے سے لے کر پہلے پہنچنے والوں کی بڑی بڑی چوکڑیوں اور بعد میں آنے والوں کو جگہ دینے میں حوصلے کی کمی ناصرف ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے رحم دلی اور محبت کے فقدان بلکہ خود پسندی اور سوچوں کے بگاڑ کی عکاس ہے جو اس وقت ہمارے مسلمانوں کے متعلق ہونے والے عالمی سطح پر منفی پرچار کی تصدیق ہے۔ دنیا کو ہماری عبادات سے کوئی غرض نہیں مگر معاملات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ہمیشہ اعلیٰ اخلاقیات کی طاقت کی بنیاد پر پھیلا اور آج اگر تنگ نظری، انتہاپسندی اور دہشت گری کو مسلمانوں سے جوڑا جا رہا ہے تو اس میں مسلمانوں کے رویوں اور علمی و تحقیقی میدان میں پیچھے رہ جانے کی وجوہات شامل حال ہیں۔
حالانکہ دین کا تو مقصد ہی دنیا کی زندگی کو اللہ کے احکامات اور رسول اللہﷺ کی سنت کے مطابق گزارنے کا نام ہے۔ دین و دنیا میں تقابلی مطالعہ دراصل دین کی غلط تشریحات کا نتیجہ ہے۔ دراصل دین دنیا کی مادی چیزوں کو ضروریات کی حد تک اہمیت دیتا ہے اور اصل اہمیت انسانیت کی ہے اور اسی تصور کے تحت اس زندگی کا آخرت کی زندگی سے تعلق قائم کرتا ہے اور ہمارے ہاں دین و دنیا کی تقسیم کے تصور نے دونوں اطراف کو ایک دوسرے کے مدمقابل لا کھڑا کیا ہے اور دین دار دنیا داروں کو سیکولر کے طعنے دے رہے ہوتے ہیں اور دنیا دار دین داروں کو مسلمانوں کے اندر جدید علوم اور ترقی کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ اس وقت اسلام کے بنیادی تصور سے دوری کا ہی نتیجہ ہے کہ ہماری مادی ترقی نے خالق کائنات کے فطری حسن کو لالچ و طمع میں بگاڑ کر اسے ترقی کا نام دے دیا ہے جس سے انسان کی بہتری کے اسباب کم اور بگاڑ کے زیادہ پیدا ہوئے ہیں۔
درحقیقت اس کا تعلق دین و دنیا، لبرل ازم، سیکولرازم سے نہیں بلکہ تعلیم و تربیت، اخلاقیات، ہماری ثقافت اور رسومات سے پیدا ہونے والے ماحول سے ہے جس نے ہمیں ان دو مخالف انتہاؤں پر پہنچا کر ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے اور ہم اصل حقائق کو سمجھنے سے اس لئے دور ہو چکے ہیں کہ ہمارے درمیان حائل خلیج ہمارے ایمان اور یقین کا حصہ بن چکی ہے جو ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ہی نہیں دیتی کہ ہم ان مسائل کی اصل وجوہات کو سمجھ سکیں۔ ہمارے ان نفسیاتی مسائل نے ہمیں آج اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ ہمارے دونوں اطراف کے طبقات سے تعلق رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ کامیابی و ناکامی کی اصل تعریف صرف ان کو معلوم ہے۔ مذہبی اطراف والے سمجھتے ہیں کہ جنت کی اسناد ان کے پاس ہیں اور ان کی سوچ و عمل کے نتائج کی صورت حال یہ ہے کہ انسانی جانوں کی حفاظت پر مامور ہی زندگیوں کے لئے خطرات بن چکے ہیں اور ان کو یہ احساس تک نہیں رہا کہ ان کو سونپی گئی حفاظت کی ذمہ داری کتنی اہم ہے اور وہ اپنی غیر شرعی اور غیر قانونی اقدامات پر عدالتوں اور ریاستی اداروں سے بھی توقعات رکھتے ہیں کہ وہ آئین و قانون کو بھی نظرانداز کرتے ہوئے ہر طرح کی سہولیات اور تحفظات مہیا کریں اور ان کی سوچوں کو ہی زندگی کا اصل مقصد سمجھیں۔
حکومت کو اپنی آئینی و قانونی ذمہ داری نبھاتے ہوئے قانون سازی سے لے کر تعلیم و تربیت اور قانون پر عمل درآمد تک کی کوششوں کو بروئے کار لانا ہو گا اور معاشرے کی صحیح تشکیل، انسانی حقوق کا تحفظ اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔
اس کے لئے ہمارے پاس مشعل راہ کے طور پر اسلامی تعلیمات اور عبادات کا مرکز جہاں پوری دنیا کے مسلمان اپنے فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں حرمین شریفین میں رائج نمونہ ہے جہاں نظریاتی اختلافات کی موجودگی کے باوجود سب ایک ساتھ اللہ کی بارگاہ میں ایک ساتھ قیام اور سجود میں عاجزی کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی علماء اپنے نظریاتی اختلاف ضرور رکھیں مگر اللہ کے گھر مساجد کو تو ان نظریات کے پہروں سے آزاد کر دیں۔ وہاں عبادت کو اللہ اور اس کے بندے کا معاملہ رہنے دیں اور جو جیسے چاہے اپنی عبادت کرے ہر کسی کو حرمین شریفین کی طرز پر آزادی سے عبادت کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اور حکومت کو چاہیے کہ اس پر تمام مکاتب فکر کے علماء اور ان کے پیروکاروں کو اکٹھا ہونے کے لئے قانون کا اطلاق کرتے ہوئے آمادہ کریں۔
حرمین شریفین میں بھی اگر اس پر عمل ہو رہا ہے تو اس میں اہم کردار حرمین شریفین کے انتظامی امور کی ذمہ دار سعودی حکومت ہے جنہوں نے فقہی نظریات کا اللہ کے گھروں مساجد میں عبادات پر اطلاق نہیں ہونے دیا اور یہی صحیح اسلامی تصور بھی ہے۔ مساجد اللہ کے گھر ہیں اور ان کے اندر اللہ کے بندوں کی عبادات پر کسی بھی طرح کے کسی بھی فقہی نظریات کے پہروں کو رکاوٹ بننے کی قطعاً اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ملک کی تمام مساجد حکومت کی تحویل میں ہونی چاہئیں اور ان کے امام اور خطیب حکومتی عہدیدار ہونے چاہئیں جن کے اندر بہتری لانے کے لئے مساجد اور ان سے متصل تعلیمی درس گاہوں اور علماء کو سرکاری سطح پر قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ مذہبی حلقوں سے وابستہ انسانی وسائل کی صلاحیتوں کا تشکیل معاشرہ کے لئے مثبت اور صحیح استعمال ممکن بنا کر ان کو فرقہ واریت کے فروغ کی بجائے اس کی روک تھام، محبت، اخوت، بھائی چارہ اور امن کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
اس مقصد کی تکمیل کے لئے آئین و قانون کے اطلاق کے ساتھ ساتھ عملی طور پر معاشرے کے اندر اس طرح کے ماحول کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جس میں سرکاری سطح سے لے کر عوامی سطح پر اللہ کے رسول خاتم النبیینﷺ کے اعلیٰ اخلاقیات کی تعلیمات عام ہوں تاکہ ریاست کے معاملات، سیاست اور مذہب کے درمیان حائل دوریوں کو ختم کیا جا سکے جس سے ناصرف اپنے اعلیٰ اخلاقیات اور اوصاف کی بنیاد پر مذہبی حلقوں کا طبقہ سیاست اور ریاست کے انتظامی امور میں اپنی جگہ بنا سکے بلکہ حکومتی اور سیاسی سطح پر بھی اسلامی شعار پر عمل سے حقیقی محبت کا تاثر ملے۔
اگر مملکت خداداد کے اسلامی تشخص کی بحالی کی فکر ریاستی سطح پر موجود ہو تو اس کے عملی تاثر کے ماحول کی جھلک وزیر اعظم اور صدر کے ریاست کی بڑی مرکزی مساجد کی امامت کے ذوق شوق اور قابلیت و اہلیت کے عملی اظہار کی صورت نظر آنی چاہیے۔ معاشرے کے آسودہ، خوشحال اور صاحب اختیار و اقتدار لوگوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اگر ان کو اسلام اور اپنے قومی تشخص کی فکر ہے تو پھر اپنے اندر وہ صلاحیتیں پیدا کریں جو ان کو اللہ کی دی ہوئی دنیاوی نعمتوں کے ساتھ ساتھ دین کی سمجھ اور اشاعت کا ذریعہ بھی بنائیں جس کے لئے ان کو اپنے اندر وہ صلاحیتیں پیدا کرنا ہوں گی کہ ان کو منبر و مسجد کے ماحول میں بھی مقام حاصل ہو اور معاشرے کے لئے ایک مثال بنیں اور اس سے دین و دنیا میں حائل خلیج کو کم کیا جا سکے۔ اگر گاؤں کے چوہدری سے لے کر ریاست کے سربراہوں تک کے دل میں دین کی محبت ہو تو کیوں نہ مساجد کے منبر اور امامت کا شوق ان کی زندگیوں میں دیکھنے کو ملے جو ہمارے اسلاف کا عمل رہا ہے۔