مریم نواز صرف شریف خاندان کی ایک فرد نہیں بلکہ عوام کی امید بھی ہیں

مریم نواز صرف شریف خاندان کی ایک فرد نہیں بلکہ عوام کی امید بھی ہیں
معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ سرمایہ اپنا تحفظ چاہتا ہے اور جہاں اسے تحفظ میسر نہ ہو وہاں سے پرواز کر جاتا ہے۔ لیکن، تمام آزمائشوں اور تکالیف کے باوجود شریف خاندان نہ صرف پاکستان میں سیاست کر رہا ہے بلکہ کاروبار بھی کر رہا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملکی حالات سے مایوس ہمارے اکثر سرمایہ دار اپنا سرمایہ متحدہ امارات، بنگلہ دیش، ملائشیا اور دیگر ممالک منتقل کر کے وہاں کاروبار کر رہے ہیں۔ ناموافق حالات کا سامنا کرنے کے باوجود شریف خاندان کا سیاسی اور کاروباری میدان میں ڈٹے رہنا پاکستانی سیاست میں ایک عجوبہ ہی کہلائے گا۔

اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ وطن عزیز میں اگر بھٹو خاندان نے جانوں کی لازوال قربانی دی ہے تو شریف خاندان کی مالی قربانیوں کی بھی کوئی مثال نہیں۔ 70 کی دھائی میں جب تمام بڑے ادارے قومیائے گئے تو شریف خاندان کے کارخانے بھی قومیا لیے گئے۔ میاں محمد شریف مرحوم کے عزم نے ایک بار پھر صنعتی برادری میں اپنا مقام بنایا لیکن  پھر 1999 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد پرویز مشرف نے نہ صرف اس خاندان کو ملک بدر کر دیا بلکہ شریف خاندان کے تمام اثاثے بحق سرکار ضبط کر لیے، یہاں تک کہ ماڈل ٹاؤن کا ذاتی گھر بھی قبضے میں لے کر 'اولڈ ایج ہوم' میں تبدیل کر دیا گیا۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کے بعد عوام اگر کسی رہنما کی جانب دیکھ رہی ہے تو وہ مریم نواز ہیں۔ اس نڈر خاتون سے خوفزدہ سیاستدان اسے موروثی سیاست کا نام دے کر عوام کو ورغلانے  کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے بڑے جمہوری ممالک میں بھی ایک ہی خاندان کے متعدد افراد سیاست میں آئے اور اپنا، جمہوریت کا اور اپنے ملک کا نام روشن کیا مثال کے طور پر امریکہ کے کنیڈی، بھارت کے نہرو، سری لنکا کے بندرانائکے اور پاکستان کے بھٹو خاندان نے سیاست میں اپنا آپ منوایا ہے۔

جسے پیا چاہے وہی سہاگن، عوام جس لیڈر کو پسند کریں اور اسے مسند اقتدار تک پہنچائیں وہی رہنما کہلاتا ہے لیکن  ہمارے یہاں اکثر لیڈر پولٹری فارم میں تیار کئے جاتے ہیں، جنہیں عوامی حمایت حاصل نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ انجیکشن کے ذریعہ بنائے گئے لیڈر جب اقتدار پر بٹھائے جاتے ہیں تو ملک کا وہی حال ہوتا ہے جو آج کل پاکستان کا ہو رہا ہے۔

اس وقت ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے۔ ہر حال میں ہمارے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑا رہنے والا چین ان برائلر سیاستدانوں سے ناراض ہے، رجب طیب اردوان جیسا ترک بھائی پاکستان کا راستہ بھول چکا ہے، مہاتیر محمد اور ایرانی صدر بھی خفا دکھائی دیتے ہیں۔

مہنگائی اور بیروزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ اس وقت انہیں ایک ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو ان کی آواز بن کر ان استبدادی قوتوں سے ٹکرا جائے اور جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں گذارش کی ہے کہ عوام مریم نواز کی جانب دیکھ رہی ہے۔ وہ پہلے بھی ان باطل قوتوں کی نیندیں حرام کر چکی ہیں اور وقت انہیں ایک بار پھر پکار رہا ہے۔ بجا کہ وہ ایک کے بعد ایک صدمات سے گزری ہیں لیکن ایک بہادر باپ کی بہادر بیٹی ہونے کے ناطے انہیں اپنی تمام تکالیف کو پس پشت ڈال کر اب باہر نکلنا ہو گا کیونکہ وہ صرف شریف خاندان کی ایک فرد نہیں بلکہ عوام کی امید بھی ہیں۔

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔