پاکستان میں اداکاروں اور اداکاراؤں کی سماجی اور سیاسی معاملات پر سمجھ بوجھ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اکثر ان میں آپ کو آمریت کے حامی بھی ملیں گے۔ عوامی معاملات پر یہ کسی جزیرے پر رہتے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے زیادہ افسوسناک رویہ ان خواتین ایکٹرز کا ہے جو گاہے بگاہے خود کو دائیں بازو کی validation کا بھوکا پاتے ہوئے یا غالباً اپنے ہی تنگ نظر خیالات کی بنیاد پر عورت مارچ پر تبصرا کرنا نہیں بھولتیں جس کے تحت خواتین کے حقوق کے مطالبے کے لئے سال میں محض ایک دن سڑکوں پر جلوس کی صورت میں نکل کر سماجی حقوق کے کارکنان اور عام خواتین آواز اٹھاتے ہیں۔
اب ایک اور اداکارہ سارہ خان نے ایک انٹرویو کے دوران فیمینزم سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'میں صنف میں برابری پر یقین رکھتی ہوں، میں خواتین کو برتر دکھانے کا مطالبہ نہیں کرتی بلکہ میں خواتین اور مردوں کو ایک ساتھ دیکھنے کے بارے میں کہتی ہوں'۔
حقیقت یہ ہے کہ عورت مارچ یا feminism کا نہ تو یہ مقصد ہے، نہ ہی مطالبہ کہ خواتین مردوں سے افضل ہیں۔ اس میں برابری ہی کی مانگ کی جاتی ہے۔ اور یہ اداکارائیں جب عورت مارچ کو discredit کرنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے کبھی feminist نظریے کو تو دور کی بات ہے، عورت مارچ کا کوئی پمفلٹ بھی نہیں پڑھ رکھا۔
سارہ خان نے کہا کہ مردوں اور خواتین کو اس ہی جگہ پر رہنا چاہیے جو اللہ نے ان کے لیے مختص کی ہیں اور اسے تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اسے زبردستی اللہ کی بنائی تقسیم قرار دینا بھی گویا اب مذاق بن گیا ہے۔ اسلام نے کہیں خواتین کو کام کرنے سے نہیں روکا۔ پاکستان کے ہر کھیت، کھلیان میں، فیکٹریوں میں، بازاروں میں خواتین کام کر رہی ہیں، دفتروں میں، بینکوں میں، اور خود سارہ خان بھی ڈرامہ انڈسٹری سے تعلق رکھتی ہیں۔ لیکن بس کھانا خود گرم کرنے کو کہہ دیا جائے تو اسے اللہ کی بنائی تقسیم سے ٹکر لینے کے مترادف قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ مردوں کی بنائی تقسیم ہے۔ اسلام کہیں یہ نہیں کہتا کہ خواتین ہی کو کھانا گرم کرنا چاہیے یا اپنے شوہر کے موزے ضرور ڈھونڈ کے دینے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں لڑنے کے بجائے اپنے بیٹوں کی اچھی تربیت کرنا زیادہ بہتر ہے، اپنی بیٹیوں کو یہ نہ سکھائیں کہ وہ عورت مارچ کریں بلکہ اپنے بیٹوں کی تربیت کریں کیونکہ ان بیٹوں کی ماں ایک عورت ہی ہے۔
یہ تو دنیا کی ہر برائی کی جڑ اماں حوا کو قرار دینے والی بات ہے۔ ماں کسی کو غلط حرکتیں نہیں سکھاتی۔ بیٹے خود سیکھتے ہیں، اور زیادہ تر باپ سے، دوستوں سے، چچاؤں سے، بڑے بھائیوں سے سیکھتے ہیں۔ ماں سے کبھی پوچھیں بازار میں نکلتی ہے تو اس کے ساتھ کیا بیتتی ہے تو خود ہی سدھر جائیں لیکن یہ بھی باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ماں سے کبھی کچھ پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ماؤں کو چاہیے کہ خواتین کو اپنے حقوق مانگنا سکھائیں۔ حقوق نہ ملنے کو اللہ کی تقسیم قرار دینا نہ سکھائیں۔
سارہ خان نے کہا کہ ایک خاتون گھر کے امور چلاتی ہے وہ گھر والوں کے لیے کھانا بناتی ہے اور اپنی فیملی کو سپورٹ کرتی ہے، اللہ نے خواتین کو ایک خاص جگہ دی ہے لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ مردوں کے بھی برابری کے حقوق ہیں۔
یہ بات ایک ایسی خاتون کر رہی ہے جو خود ڈراموں میں کام کرتی ہے۔ آپ خود تو گھر نہیں بیٹھیں، دوسری خواتین کو گھر بیٹھ کر چائے پانی کے انتظام پر لگائے رکھنا چاہتی ہیں۔
شاید پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں خلیل الرحمان قمر وائرس اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ اپنے ارد گرد کے حقائق کو نظر انداز کر کے بس عورت مارچ پر جملے کسنا ہی ان کے لئے ایک واحد ذریعہ رہ گیا ہے لوگوں کو خوش رکھنے کا۔