Get Alerts

سابقہ اہلیہ اور حکومتِ وقت

سابقہ اہلیہ اور حکومتِ وقت
تحریر: (بیرسٹر اویس بابر) آپ نے اکثر اپنے آس پاس دیکھا ہوگا کہ خاوند اپنی بیگمات سے اور بیگمات اپنے مجازی خداؤں سے سخت نالاں پائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں شادی بربادی، شادی نہ کرنا یارو جیسے محاوروں نے جنم لیا ہے۔ انسان شادی کرتے وقت بیک وقت دو عورتوں سے شادی کرتا ہے، ایک اس سے جو اس کے سامنے ہوتی ہے اور ایک اس سے جو اس کے ذہن میں ہوتی ہے۔

ایسے میں کچھ مرد حضرات اپنی پہلی بیوی سے تنگ ہو کر دوسری شادی کر لیتے ہیں۔ ان کو اپنی بیگمات سے بے شمار گلے شکوے ہوتے ہیں، جن میں سے اکثر دنیاوی لحاظ سے جائز ہوتے ہیں۔ کسی کو اپنی بیوی کی شکل پسند نہیں ہوتی تو کوئی اپنی بیوی کے اخلاق سے عاری ہوتا ہے۔ کسی کسی کی بیوی تو صورت اور سیرت دونوں کی مالکن ہوتی ہے لیکن پھر بھی اپنے خاوند کو ایک آنکھ نہیں بھاتی، ایسے میں اگر ان سے پوچھا جائے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اتنی اچھی بیوی ہونے کے باوجود خفا ہو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم دونوں کا ذہن نہیں ملتا، ایسی اور اس سے ملتی جلتی بے شمار مثالیں آپ کو ملیں گی۔

پھر آتی ہے نئی بیوی، جس دن وہ آپ کے گھر میں قدم رکھتی ہے آپ خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ ایک نئی زندگی کی شروعات آپ کو پھر سے جوان کر دیتی ہے۔ ابھی کچھ بھی نیا ہوا تو نہیں ہوتا لیکن آپ کو اندر ہی اندر یقین ہوتا ہے کہ آپ نے بلکل درست فیصلہ کیا ہے۔ آپ کو اپنے والدین دوست احباب سب کی وہ نصیحتیں سخت ناگوار گزرتی ہیں جو آپ کی نئی بیوی کے خلاف ہوں۔ اس وقت آپ پیار کے نشے میں دھت آنے والے کل کی فکر سے مکمل آزاد ہوتے ہیں۔ یہ بیوی ہی ہوتی ہے جو 30 ہزار میں بھی گھر چلا لیتی ہے اور وہ بھی بیوی ہی ہوتی ہے جس کے لیے 30 لاکھ بھی کم پڑ جاتے ہیں۔

آپ کی نئی بیوی آتے ہی گھر کا سارا نظام تبدیل کر دیتی ہے۔  آپ کی تنخواہ میں  سے آپ کے والدین اور بہن بھائی کو کتنے پیسے ملنے چاہئیں یہ بھی وہ طے کرتی ہے۔ اب تک آپ زندگی کی جن محدود آسائشوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے وہ بھی آپ سے چھین لیتی ہے۔

ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا ہوتا ہے کہ آپ کے گھر کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ آپ کی اپنی نئی بیوی کو خوش کرنے کی ساری کاوشیں بھی ناکام ہونے لگتی ہیں۔ اندر ہی اندر آپ پریشان ہونے لگتے ہیں کہ کہیں سابقہ اہلیہ کو چھوڑ کر آپ نے غلطی تو نہیں کر دی۔ آپ کو اچانک سے اپنی سابقہ اہلیہ کی وہ خوبیاں یاد آنا شروع ہو جاتی ہیں جن پہ آپ نے کبھی دھیان ہی نہیں دیا تھا۔ آپ اپنے آپ کو کوسنے لگتے ہیں کہ ناشکری میں بس خامیاں ہی ڈھونڈتے رہے، جن وجوبات کی وجہ سے آپ نے اپنی سابقہ اہلیہ کو دھتکارا ہوتا ہے اب آپ کو انتہائی بے معنی لگنے لگتی ہیں۔

کچھ ایسا ہی حال آجکل ہماری عوام کا ہے جن کو دس سال یہ سبق پڑھایا گیا کہ جو زندگی یہ گزار رہے ہیں وہ تو انتہائی فضول قسم کی زندگی ہے، ابھی تو بہت کچھ دیکھنا باقی ہے۔ ان کو مزید یہ سبق پڑھایا گیا کہ اگر نئی اہلیہ یعنی کہ نئے وزیراعظم کو لایا جائے تو زندگی میں نئی خوشیاں آجائیں گی لیکن ہوا وہی جو نئی دلہن کے آنے کے بعد ہوتا ہے۔

نئے خوبصورت وزیراعظم کے آتے ہی عوام کو پرانے پرچی سے پڑھنے والے بظاہر غیر پراعتماد اور اوسط خوبصورتی رکھنے والے حکمران یاد آنا شروع ہو گئے ہیں۔ محکموں میں کام کرنے والے اہلکاروں کو وہ مِنِسٹر یاد آرہے ہیں جو ان کو شٹ اپ (shut up) تو کہنا دور بلکہ الٹا عزت سے پیش آتے تھے۔ یہاں تک کہ سابق حکومتوں کے سب سے بڑے ناقد حسن نثار نے اپنے اوپر لعنت تک بھیج دی۔ ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ کہاں گئے وہ دانیال و طلال میں اُن کو یاد کر رہا ہوں۔

آج کل حکومتِ وقت کے ترجمانوں کے لئے حکومت کا دفاع کرنا مشکل سے مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس مشکل سے نمٹنے کے لئے یہ ترجمان اب ٹاک شوز میں دوسری پارٹی والوں کو جلی کٹی سنا کر موبائل میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ایسا کرنے سے وہ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ چاہے اب آپ جتنا شور مچالیں ہوگا وہی جو نئی بیوی چاہے گی۔

یہ حال بہرحال ساری کی ساری عوام کا نہیں ہے۔ ان میں سے کچھ لوگوں کو نکالا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پہ ہمارے دس لاکھ فوجی بھائی جن کو اس بات سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کہ مہنگائی کتنی ہو گئی ہے کیونکہ ہم نے یہ تہیہ کر لیا ہے کہ ہم بھوک سے تو مر جائیں گے لیکن پڑوسی دشمن کی گولی سے نہیں۔ اُن بےروزگار لوگوں کو بھی نکال دیجیے جو اپنے لڑکپن سے خان صاحب کی پرجوش تقریریں سن رہے ہیں۔ اب ان کے لئے واپسی کا راستہ اتنا ہی مشکل ہے جتنا ایک نوجوان خودکش حملہ آور کے لیے دوبارہ سے عام انسان بننا۔ یہ بیچارے اتنے متاثر ہو چکے ہوتے ہیں کہ اگر پکڑے بھی جائیں تب بھی توبہ کرنے کے بجائے کہتے ہیں کہ اگر وہ چھوٹ گئے تو پھر بھی خودکش دھماکہ کر کے اپنے عزم کو پورا کریں گے۔

اسی طرح کئی نوجوان چاہے بےروزگار ہوں یا برسرِروزگار وہ اب بھی پراُمید ہیں کہ خان صاحب ایک نہ ایک دن ان کی تقدیر ضرور بدلیں گے۔ ان کی طرح میری بھی یہ خواہش تو ضرور ہے لیکن اب نہ تو پوری ہونے کی تمنا رہی نہ آرزو۔ اُن بیرونِ ملک پاکستانیوں کو بھی نکال دیجیے جن کے لئے وطن کی محبت صرف دور سے تماشا کرنے تک محدود ہے۔ باقی رہ گئے صرف اور صرف 20 کروڑ لوگ جو اب اپنی ڈور نئی بیوی کے ہاتھوں میں ویسے بھی دے چکے ہیں۔   

اس سے قطع نظر کہ عوام خوش ہے یا نہیں اب عوام اپنی نئی اہلیہ اور اپنی نئی ساس کے پورے شکنجے میں ہے اور جب نئی اہلیہ گھر میں آتی ہے تو پہلے سے اپنا ہوم ورک مکمل کر کے آتی ہے کہ کہیں آپ آسانی سے اس سے جان نہ چھڑالیں۔ اب بھگتیں۔

ازراہ تفنن

بیرسٹر اویس بابر