ہوئیر چترال میں وادی آرکاری کا نہایت حسین علاقہ اوویر لشٹ کے لوگ نہ تو رات کو سکون سے سو سکتے ہیں نہ دن کو چین سے بیٹھ سکتے ہیں اور نہ کھانا آرام سے کھا سکتے ہیں۔ ان لوگوں کی پریشانی کی بنیادی وجہ برفانی تودہ ہے جو ان کے سروں پر ہر وقت لٹکتی ہوئی تلوار بنی ہوئی ہے۔
ہمارے نمائندے نے اس علاقے کا دورہ کیا جو کسی بھی میڈیا کا اس وادی میں پہلا قدم تھا۔ ان لوگوں نے بتایا کہ اسی وادی میں مومی کے مقام پر پہاڑوں پر پڑا ہوئی صدیوں پرانا برفانی تودہ (گلیشیر) جب پھٹ گیا تو اس سے تباہ کن سیلاب آیا جس میں کئی لوگ لقمہ اجل بن گئے۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ہماری اس بستی کے اوپر پہاڑی کے اوپر صدیوں پرانے برفانی تودے پڑے ہیں جو کسی بھی وقت گلوف کا باعث بن سکتے ہیں۔ ہم قدرتی آفات کو روک تو نہیں سکتے مگر بہتر حکمت عملی سے اس کی نقصان کا شرح کم سے کم کر سکتے ہیں۔
میر غازی نے کہا کہ ہم دن میں کئی بار یہاں کا چکر لگاتے ہیں کہ کہیں یہ برفانی تودہ تو نہیں پھٹا۔ کبھی کبھی تو رات کو بھی چکر لگاتے ہیں۔ اگر کوئی حطرے کی علامات نظر آئے تو سارے بستی والوں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ یہاں سے بھاگ جائے اور اپنی جانیں بچائے۔
انہوں نے کہا کہ اگر غلطی سے بھی کوئی سیلاب کا نام لے کر پکارے تو ہماری نیند حرام ہوتی ہے اور ہم محفوظ مقامات کو بھاگ جاتے ہیں۔ دانیال جو اسی علاقے کا باشندہ ہے اور کراچی میں ملازمت کرتا ہے ان کا کہنا ہے کہ اس خوبصورت وادی کو سیلاب کی تباہ کاری سے بچانے کیلئے ایک حفاظتی دیوار کا فوری تعمیر ضروری ہے، اس سے پہلے کہ یہ گلشییر پھٹ جائے اور تباہی مچائے۔ اس وقت پھر ادارے حرکت میں آتے ہیں۔ حفاظتی دیواریں، پشتیں بناتے ہیں مگر اس وقت کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
زرتاج علی خان نے بتایا کہ یہ وادی اس موسم میں تو جنت ہے مگر جنت کے سر پر ہر وقت حطرہ رہتا ہے۔ کھانا کھاتے وقت بھی اگر کوئی مذاق میں کہے کہ سیلاب آیا تو ہم کھانا بھی چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ زرتاج نے مزید بتایا کہ اس علاقے میں لوبیا، مٹر، مسور کی دالیں اور ہر قسم کی سبزیاں اگتی ہیں مگر اس خوبصورت علاقے کو ہر وقت سیلاب کا خطرہ ہوتا ہے۔
محمد اعظم نے بتایا کہ یہاں ہر وقت سیلاب آتا ہے۔ دریا کے کنارے سڑک اور زمین کٹاؤ کی وجہ سے دریا برد ہوتا ہے۔ ہم اکثر اس سڑک کو اپنی مدد آپ کے تحت اسے مرمت کرتے ہیں کیونکہ ابھی تک نہ تو ہم نے سرکار کا کوئی بندہ دیکھا نہ اس سے پہلے کوئی میڈیا والا آیا ہے۔
انہوں نے بھی مطالبہ کیا کہ یہ علاقہ نہایت خوبصورت ہے مگر اس کو بچانے کیلئے دونوں جانب حفاظتی دیوار تعمیر کرنا چاہیے ورنہ کسی بھی وقت GLOF یعنی برفانی تودہ پھٹنے سے تباہ کن سیلاب آسکتا ہے۔
میر شجاع اللہ نے ہمارے ٹیم کا شکریہ ادا کیا جو پہلی بار کوئی میڈیا ٹیم یہاں آکر ہمارا حال احوال اور مشکلات کا پوچھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کے لوگ نہایت جفاکش ہیں اور محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کو تعلیم کیلئے یہاں سے باہر بھیجتے ہیں کیونکہ یہاں صرف ایک پرائمری سکول ہے۔ مگر ان سب مشکلات کے باوجود ہم برداشت کر لیتے ہیں۔ بس ایک ہی مسئلہ ہے کہ ہم اس خوبصورت بستی کو سیلاب کی تباہ کاری سے نہیں بچا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے جہاں پوری دنیا متاثر ہوئی ہے تو اس خوبصورت بستی کو بھی اس کی تباہ کاری سے ہر وقت حطرہ ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں یہاں ہر قسم کے پھل اگتے ہیں اور موسم اتنا ٹھنڈا ہے کہ خوبانی ابھی تک نہیں پکے ہیں حالانکہ دیگر علاقوں اور چترال میں بھی کب کا خوبانی پک کر ختم ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سب کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ اس بستی کو بچانے کیلئے اس کے دونوں جانب حفاظتی دیوار بنایا جائے تاکہ ہم سکون کے نیند سو سکے۔ ان تمام لوگوں نے صوبائی اور وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اداروں سے بھی اپیل کی ہے کہ ان کی اس جنت نظیر بستی کو ممکنہ سیلاب کی تباہ کاری سے بچانے کیلئے جہاں سے برفانی تودہ کی وجہ سے سیلاب کا خطرہ ہے، اس سے بچنے کیلئے اس بستی کے دونوں جانب حفاظتی دیواریں بنائی جائیں تاکہ یہ علاقہ کسی بھی ممکنہ سیلاب کی تباہ کاری سے بچایا جاسکے۔
واضح رہے کہ اوویر لشٹ اور مضافاتی علاقے چار ہزار آبادی پر مشتمل ہیں جہاں نہ تو کوئی ہسپتال ہے اور نہ لڑکیوں کیلئے کوئی پرائمری سکول۔ یہ لوگ زمینداری اور مال مویشی پالنے پر گزارہ کرتے ہیں جو ان کا واحد ذریعہ معاش ہے مگر اس خوبصورت علاقے کے اوپر پہاڑی کا سلسلہ ہے جہاں صدیوں پرانی برفانی تودے یعنی گلیشئیر پڑے ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ کر کسی بڑے سیلاب کا باعث بن سکتا ہے۔ مقامی لوگ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس برفانی تودے کے باعث ممکنہ سیلاب کی تباہ کاری سے بچانے کیلئے یہاں حفاظتی دیواریں تعمیر کی جائیں تاکہ یہ لوگ بڑے پیمانے پر تباہی سے بچ سکے۔