کرونا وائرس کے باعث ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے آن لائن کلاسز کے فیصلے پر ملک بھر میں طلبہ سراپا احتجاج ہیں، طلبہ ایچ ای سی کے آن لائن کلاسز اور امتحانات کے فیصلے سے غیر مطمئن ہیں۔ ملک کے پسماندہ علاقوں بلوچستان، خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے بعد آن لائن کلاسز کے خلاف پنجاب کے مرکز سے بھی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔
پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے تقریباً 60 کلومیٹر دور صنعتی شہر گوجرانوالہ میں واقع پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ بھی آن لائن کلاسز کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالہ کیمپس کے طلبہ نے نیا دور میڈیا کو اپنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یونیورسٹی کی جانب سے آن لائن کلاسز صرف دکھاوا اور کاغذی کارروائی ہے اس کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ طلبہ نے ایچ ای سی کی جانب سے آن لائن کلاسز اور امتحانات کے فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
طلبہ نے بتایا کہ آن لائن کلاسز کا وقت مقرر ہے لیکن اس کے باوجود پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالہ کیمپس کے لیکچررز وقت پر کلاسز نہیں لیتے اور دن میں کسی بھی وقت طلبہ کو پیغام بھیج دیتے ہیں کہ آن لائن ہو جائیں لیکچر ہوگا، جس کی وجہ سے ان طلبہ کے لیے بروقت آن لائن کلاسز کو جوائن کرنا مشکل ہو جاتا ہے جنہیں انٹرنیٹ مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
طلبہ نے مزید یہ بھی بتایا کہ آن لائن کلاسز میں کچھ لیکچررز ہمیں سوال کرنے کا موقع نہیں دیتے، لیکچرر طلبہ کی آواز کو بند (Mute) کر دیتے ہیں اور جیسے ہی آن لائن کلاس ختم ہوتی ہے، ہمیں سوال کا موقع دینے کے بجائے آن لائن سیشن بند کر کے اگلے سیشن کا وقت بتا کر خدا حافظ کہہ دیا جاتا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالہ کیمپس کے طلبہ نے نیا دور میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس بات پر بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا کہ ہمارے ساتھی طلبہ جو گوجرانوالہ کے نواحی علاقوں سے آتے تھے، وہ انٹرنیٹ مسائل کی وجہ سے ہمارے ساتھ آن لائن کلاسز میں شامل نہیں ہو رہے، ان تمام طلبہ کی تعلیم کا نقصان ہو رہا ہے۔
طلبہ نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر ایچ ای سی کے ہدایات پر پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالہ کیمپس نے آن لائن امتحانات لیے تو دیہاتوں سے آنے والے طلبہ جو پہلے ہی آن لائن کلاسز نہیں لے پا رہے وہ امتحانات بھی نہیں دے سکیں گے جس سے ان کا نقصان ہو گا اور وہ پیچھے رہ جائیں گے۔
طلبہ نے اپنی ساتھی طلبہ کے ساتھ واٹس ایپ پر ہونے والی چیٹ کے سکرین شاٹس بھی نیا دور کے ساتھ شئیر کیے جس میں وہ انٹرنیٹ کی کم رفتار کو آن لائن کلاسز میں شامل نہ ہونے کی وجہ بتا رہے ہیں اور اپنے تعلیمی نقصان پر دلبرداشتہ ہیں۔
طلبہ کے مسائل پر جب نیا دور میڈیا نے ڈی جی پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالہ کیمپس ڈاکٹر سید سلمان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ جن طلبہ کو جی پی اے (GPA) کا مسئلہ ہوتا ہے وہ زیادہ تر ایسی شکایات کرتے ہیں، آن لائن کلاسز میں مسائل تو ہیں، آن لائن کلاسز حقیقی کلاسز جیسی تو نہیں ہیں لیکن کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا بہتر تھا۔
طلبہ کو آن لائن کلاسز میں سوال کرنے کی اجازت نہ دیے جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ شاید ہی کوئی ایسا ٹیچر ہو جو ایسے کرتا ہو، ایسا نہیں ہوتا۔ آن لائن کلاسز میں گوگل کی زوم ایپلی کیشن استعمال کرتے ہوئے اگر لیکچرر کے علاوہ کسی کا مائیک آن ہو تو بچوں کو لیکچر کی سمجھ نہیں آتی اس لیے طلبہ کے مائیک بند کر دیے جاتے ہیں۔
ڈی جی پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالہ کیمپس نے اس بات پر بار بار زور دیا کہ آن لائن کلاسز اس لیے ہیں کہ ان سے جتنا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اٹھا لیا جائے، اور انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ آن لائن کلاسز میں مسائل موجود ہیں۔ انہیں مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ بچوں کے جی پی اے (GPA) کو یا انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچنے دیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ 2 جولائی کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے ساتھ اہم میٹنگ ہے، جس میں مجھے امید ہے یونیورسٹیز مرحلہ وار کھلیں گی۔ اس لیے ہم نے صرف آن لائن کلاسز پر ہی انحصار نہیں کرنا۔ جامعہ میں پڑھنے والے کچھ بچے ایسے بھی ہیں جو دیہاتی علاقوں سے ہیں اور ان کے پاس انٹرنیٹ نہیں تھا۔ ان کے لیے خصوصی کلاسز لگائی جائیں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ طلبہ کی ایک بڑی تعداد آن لائن کلاسز سے مطمئن ہے، ہمارے پاس ساڑھے 3 ہزار سے زائد بچے ہیں لیکن آن لائن کلاسز سے غیر مطمئن طلبہ کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔
ڈی جی پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالہ کیمپس نے کہا کہ جن علاقوں میں انٹرنیٹ کے مسائل ہیں اور طلبہ آن لائن کلاسز نہیں لے سکتے ان کو یہ آپشن بھی دی گئی ہے کہ آپ سمسٹر فریز کروا لیں۔ آپ کا گریڈ نہیں گرے گا صرف آپ کا ٹائم ضائع ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 100 میں سے اگر 95 بچوں کو مسئلہ نہیں ہے تو کم از کم ان کا وقت تو ضائع نہ ہو۔ زبردستی کوئی نہیں ہے لیکن یہ سمسٹر فریز کروانے کا آپشن موجود ہے۔
نیا دور میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سید سلمان نے یہ بھی بتایا کہ ابھی یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ آن لائن امتحان لینے ہیں یا نہیں لینے، یہ شفقت محمود (وفاقی وزیر تعلیم) کے فیصلے پر منحصر ہے، اگر یونیورسٹیز کھل گئیں تو پہلے کلاسز ہوں گی اس کے بعد اگر حالات اچھے ہوئے تو نارمل امتحانات بھی ہو جائیں گے۔
آن لائن کلاسز کے خلاف طلبہ کے احتجاج پر ڈی جی پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالہ کیمپس کا کہنا تھا کہ ان کے پیچھے کسی کا ہاتھ ہے اور بچوں کو سیاسی طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر سید سلمان نے نیا دور میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب آن لائن کلاسز شروع ہوئیں تو پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالہ کیمپس کے تمام طلبہ آن لائن کلاسز لے رہے تھے، اس کے بعد گرمیوں کی چھٹیوں کا اعلان ہو گیا، اب صرف آٹھویں سمسٹر کی کلاسز ہو رہی ہیں تاکہ ان کو وقت پر فارغ کیا جا سکے، ان بچوں کی تعداد ہمارے کیمپس میں سات، آٹھ سو ہے، اور زیادہ تر طلبہ آن لائن کلاسز لے رہے ہیں۔
نیا دور کو پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالہ کیمپس کے طلبہ سے حاصل معلومات کے مطابق آن لائن کلاسز میں صرف 40 سے 50 فیصد ہی طلبہ حصہ لیتے ہیں جبکہ دیگر انٹرنیٹ مسائل کی وجہ سے آن لائن کلاسز نہیں لے پا رہے۔ جو طلبہ آن لائن کلاسز نہیں لے رہے ان میں سے اکثریت کا تعلق ضلع گوجرانوالہ کے نواحی دیہاتوں سے ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں آن لائن کلاسز کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پورے ملک میں انٹرنیٹ کی عدم دستیابی یا کم رفتار ہے۔ پاکستان کے پسماندہ علاقے بلوچستان، خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے دیہی علاقوں میں بھی بہتر انٹرنیٹ سروس کا فقدان ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں صرف 37.70 فیصد آبادی کو 3جی اور 4جی انٹرنیٹ سروس تک رسائی حاصل ہے اور اس طرح ملک میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ صارفین کی تعداد بھی تقریباً 38 فیصد ہی ہے۔
خیال رہے کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے معمولات زندگی میں جو تعطل پیدا ہوا ہے اس سے اعلیٰ تعلیم کا شعبہ بھی متاثر ہوا ہے۔ عالمی وبا کی وجہ سے جنم لینے والے بحران میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے جو فیصلے کیے جا رہے ہیں وہ مزید نئے مسائل کو جنم دے رہے ہیں۔ تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے آن لائن کلاسز کا جو سسٹم متعارف کروایا گیا ہے طلبہ کی ایک بڑی تعداد اس سلسلہ تعلیم کے معیار اور سہولیات کے فقدان کے بارے میں سراپا احتجاج ہے۔