جنسی درندگی کے متعلق وزیراعظم کا بیان اور میرے چند سوالات! 

جنسی درندگی کے متعلق وزیراعظم کا بیان اور میرے چند سوالات! 
پچھلے کچھ روز سے پاکستان کے مختلف طبقوں میں ایک بحث زیر موضوع ہے جو وزیر اعظم عمران خان کے امریکی ٹیلی ویژن کو دیئے گئے ایک انٹرویو سے متعلق ہے۔ اس انٹر ویو کا ایک حصہ بہت ہی نازک صورتحال اختیار کر گیا ہے جس نے عوام میں بالعموم  اور خواص میں بالخصوص تبصروں کی نئی جہتیں کھول دی ہیں۔ اس انٹر ویو کی رو سے وزیر اعظم نے ایک سوال کے جواب میں یوں لب کشائی کی جسکا مفہوم یہ ہے کہ "ریپ کی زیادہ تر وجہ عورتوں کا لباس ہے"۔  ششدر اینکر نے حیرانی سے پوچھا کہ "لباس کیسے ریپ کی وجہ بن سکتا ہے"؟ ۔ تو وزیر اعظم صاحب نے فرمایا۔ "یہاں روبوٹ نہیں بستے اگر عورت چست لباس یا کم لباس پہنے گی تو وہ ریپ کا شکار ہو گی"۔ یعنی پاکستانی معاشرہ دوسرے معاشروں سے یوں منفرد ہے کہ یہاں عورت کا  لباس ہمارے مرد کی بشری کمزوری کا راز فاش کر دیتا ہے اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی عورت کے ساتھ ریپ جیسے قبیح فعل کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ایسے نفیس انسانوں پر مشتمل ہے جن کا خمیر گناہ سے اٹھایا گیا ہے۔ اب ایسی بات کسی بھی رو سے ملک کے وزیر اعظم کو تو زیب نہیں دیتی۔ سادہ سا اس پر تبصرہ تو  یہ ہے لیکن یہ بات اتنی بھی سادہ نہیں کہ اس پر قلم کو روک کر  کوئی اہل قلم  نیند کی وادی میں جا پہنچے۔ فکر اور سماجی پستیاں کسی بھی ادیب کے دل پر ضربیں لگاتے ہوئے اسکے قلم کو روانی بخشتی ہیں۔

ریپ جیسے گھناؤنے فعل نے ہر صاحب دل شخص کو رنجیدہ کر رکھا ہے اور خان صاحب سماج کا درد سمجھنے کی بجائے الٹی گنگا بہانے پر تلے ہوئے ہیں۔ انکی ایسی باتیں جلتی پر تیل کا کام  کر رہی ہیں کیونکہ وہ ہر جنسی درندے کو ریپ کرنے کی وجہ فراہم کر رہے ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ خان صاحب جیسا کہ خود کو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ آکسفورڈ گریجویٹ ہیں اور انھوں نے یورپ میں خاصا وقت گزارا ہے اور اس معاشرے اور ہمارے معاشرے کے مابین فرق کو بہتر سمجھتے ہیں۔ مدلل بات کرنا انکا شیوہ ہے تو اس حساس موضوع پر ایک لمبی تقریر جھاڑتے جو انکا طرہ امتیاز ہے۔ لیکن اس پر انھوں نے دو ٹوک انداز میں عورت کے لباس کو وجہ ریپ کہہ کر بات سمیٹ دی۔ خدا نخواستہ میرا مقصد یہ نہیں کہ میں خان صاحب کی نیت پر شک کروں کہ وہ ایسی جاہلانہ دلیل سے اتنے حساس مسئلے کو چٹکی میں اڑا دینا چاہتے ہوں۔ لیکن انکی اس گفتگو سے ہمارے ملک کا مجموعی تاثر دنیائے کفر تک ایسے پہنچا ہے کہ وہ اب اس پر فلمیں بنا کر ہمارے معاشرے کا پوسٹ مارٹم کریں گے کہ یہاں عورت صرف اس وجہ سے ریپ کا شکار ہوتی ہے کہ اس نے اپنے لباس سے مردوں کے جذبات میں ہلچل مچا دی ہے۔

اسکی مثال  چند عرصہ پہلے ہونے والے موٹر وے ریپ کیس میں ہم دیکھ چکے ہیں۔ جب ایک جید پولیس افسر نے عورت کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا تھا کہ اگر عورت رات کو اکیلی گاڑی چلائے گی تو مرد کے بہکنے کے مواقع بڑھ جائیں گے۔ یعنی ان صاحب کے مطابق زیورات نقدی کی طرح عورت بھی نقد جنس کی حیثیت رکھتی ہے جسکا جب جی چاہے زر دولت کے ساتھ ساتھ اسکی عزت  بھی لوٹتا ہوا آگے بڑھ جائے۔  میں اہل علم سے یہ دریافت کروں گا کہ کوئی ایسا  اعلیٰ دماغ ہے جو عورت کا ریپ صرف اس وجہ سے جائز سمجھے کہ اس نے مرد کو مشتعل کرنے والا لباس پہنا ہوا تھا؟

کچھ حضرات یہ کہتے ملتے ہیں کہ سعودی عرب جیسے معاشرے میں عورت چونکہ پورا لباس پہنتی ہے۔ پردہ کرتی ہے اس لئے محفوظ ہے۔ انکے حضور میں ادب سے یہ گذارش کرون گا کہ عورت وہاں اسلئے محفوظ نہیں کہ وہ پردہ کرتی ہے بلکہ اس لئے محفوظ ہے کہ وہاں قانون کی بالا دستی ہے۔ ریپ جیسے گھناؤنے فعل کا مرتکب ہونے والے مجرموں سے وہ اس درجہ سختی سے پیش آتے ہیں کہ پھر کسی جنسی درندے کو عورت کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں ہوتی۔ کیا پاکستان میں ایسے درندوں سے نمٹنے کیلئے کوئی مظبوط قسم کی قانون سازی کی گئی ہے اور اگر کی گئی ہے تو اس کا استعمال کس قدر مؤثر ہے؟

انٹر نیشنل رپورٹس کے مطابق حرم پاک جیسی حرمت والی جگہ پر بھی کچھ ناعاقبت اندیش خواتین کو ہراساں کرنے سے باز نہیں آتے۔ حرم میں لگے سیکورٹی کیمروں نے ایسے کئی بدتر انسانوں کو پکڑا ہے جو اپنے گندے افعال سے ایسی پاک جگہ پر بھی گند پھیلاتے نظر آئے ہیں۔ میرا پڑھے لکھے لوگوں سے ایک اور سوال ہے کہ ایسی پاک جگہ پر کیا عورت کے لباس نے مرد کو جنسی دعوت دی ہے کہ وہ ہیجانیت  کا شکار ہو کر عورت کے اعضاء کو چھوئے؟

پچھلے چند سالوں میں عموماً کم عمر بچیوں اور بچوں کو جنسی تشدد کے بعد قتل کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ آٹھ سالہ زینب کسے بھولی ہے؟ اس کا زخم آج بھی ہمارے ذہنوں پہ سوالات کے کچوکے لگاتا رہتا ہے۔ وہ کس پاداش میں جنسی درندگی کا شکار ہوئی؟ اسکا قاتل کس قسم کے لباس سے متاثر ہو کر ایسے گندے کام کی طرف مائل ہوا تھا؟ کیا اسکی بھی وجہ لباس ہی تھی؟ کیا میرے معاشرے میں ہر عورت مرد کو لبھانے والے لباس میں گلی کوچوں میں پھرتی ہے؟ رپورٹس کے مطابق  سال 2020ء میں تین ہزار کے قریب جنسی درندگی کا عورتیں شکار ہوئیں۔ کیا ان سب کا محرک لبا س ہی تھا؟

ہمارے ہاں ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ لباس مذہب کی مناسبت سے پہننا چاہئے۔ جبکہ لباس کا تعلق مذہب سے نہیں معاشرت سے ہے۔ لباس کیسا ہونا چاہئے یہ معاشرہ طے کرتا ہے اسکی مثال میں یوں دوں گا کہ ہمارے مردانہ لباس میں شلوار بیرونی عنصر ہے جو کہ ترکی سے مستعار لیا گیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے وہ شلوار کو بیلٹ سے کلپ کرتے ہیں جبکہ ہم ازاربند سے اسے قابو میں لاتے ہیں۔ ہمارا قومی لباس دھوتی کرتا ہے۔ ہم میں سے کتنے فیصد مرد ہیں جو ہمیں بازاروں میں دھوتی باندھے نظر آتے ہیں۔ مرد کے لباس پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاتا کہ وہ پتلون پہن کر اپنے مخصوص اعضا کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پتلون اسکے اعضائے مخصوصہ کو چھپانے میں کامیاب ہو جاتی ہے؟ اگر اسے چھپانے میں ناکام ہے تو کتنے فیصد عورتیں مرد پر جھپٹتے ہوئے اسکا ریپ کرتی ہیں؟

ہمارے بعض مرد جو شلوار باندھتے ہیں چونکہ وہ روبوٹ نہیں ہوتے اسلئے آزار بند کے اتنے ڈھیلے ہوتے ہیں کہ عورت کو صرف کپڑوں میں ہی دیکھ کر اپنے اوسان خطا کر بیٹھتے ہیں۔ ہماری عورتیں مغربی طرز کا لباس زیب تن نہیں کرتیں اور نہ ہی وہ جنسی دعوت دیتی بازاروں میں نکلتی ہیں۔لیکن وہ پھر بھی ریپ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ لباس نہیں بلکہ وہ ذہنی گند ہے جو مرد کو غلط کاریوں کی طرف لے جاتا ہے۔

میں بہت معذرت کے ساتھ وزیراعظم صاحب کے حضور یہ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ ریپ کی بنیادی وجہ فقط لباس کو قرار دینا انتہائی احمقانہ بات ہے۔ کئی وجوہات ہیں جنکا فوری تدارک کرنا از حد ضروری ہے۔ پورنو گرافی جیسی لعنت سے اس پاک زمین کو  پاک کرنے کیلئے آپ قانون سازی کریں اپنے جید وزراء کو یہ ٹاسک دیں کہ وہ فوری طور پر اس لعنت سے معاشرے کو چھٹکارہ دلائیں۔ مرد اور عورت کے درمیان تعلق کو سمجھنا  بہت ضروری ہے۔ ہم نے جس سماج میں آنکھ کھولی ہے یہاں عورت کی حیثیت مفعولی ہے اور مرد فاعل کے طور پر ڈٹا کھڑا ہے۔ فاعل اگر کسی درندگی کی پیش رفت کرے تو وہ چونکہ شاہی درجہ رکھتا ہے اسلئے اسے قصور وار ٹھہرانا نہایت لغو بات ہے۔ اور عورت چونکہ مفعولی کردار ہے ہم میں سے اکثر سارا ملبہ اسی پر ڈال دیتے ہیں۔ کیا یہ رویہ درست ہے کہ عورت کو سماج کی سب سے ادنیٰ شے سمجھ کر اسے قصور وار ٹھہرایا جائے؟ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ریپ کا شکار عورتیں اپنے والدین کیلئے باعث رسوائی ہوتی ہیں کیونکہ سماج ایسے خاندان کو جس نظر سے دیکھتا ہے اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ یعنی جو معصوم ہے وہی گناہگار ہے۔ اور جنسی درندہ دندناتا ہوا اپنی گندگی پورے معاشرے میں پھیلاتا پھرتا ہے۔

ہمارے ہاں عموماً لیٹ شادیوں کا رواج پروان چڑھ گیا ہے۔ اسنے ہمارے سماج کو ایک ایسی کھائی میں دھکیل دیا ہے کہ مرد صرف اس صورت شادی کر سکتا ہے جب وہ کمانے لائق ہو چاہے وہ تیس سال کا ہی کیوں نہ ہو جائے۔ خواتین جہیز نہ ہونے کی وجہ سے بن بیاہی رہ جاتی ہیں اور مرد حضرات بہتر روزگار نہ ہونے کی وجہ سے کنوارے پھرتے رہتے ہیں۔ ریاست چلانے والا ریپ کو اگر قبیح تصور کرتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ جلد شادیوں والا قانون متعارف کرائے اس سلسلے میں علماء ان کی راہنمائی کر سکتے ہیں۔ نوکریوں اور روز گار کا مسئلہ ریاست جلد از جلد حل کرے تاکہ کنوارے پن کی شرح میں کمی لائی جا سکے۔ ریاست کے بڑوں کو چاہئے کہ وہ  ریاست کو زنا بالجبر جیسی لعنت سے پاک کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔ اور ریپ کی سزا اتنی ہولناک رکھی جائے کہ پھر کسی جنسی درندے کو پھول جیسی بچیوں کو پامال کرنے کی جرات نہ ہو۔

 

مصنف پیشہ کے لحاظ سے ایک ویٹنری ڈاکٹر ہیں جو کہ بطور پولٹری کنسلٹنٹ اور فزیشن اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔