Get Alerts

یوم آزادی پر جنسی درندگی کی دوسری ویڈیو، کیا یہاں بھی عورت قصور وار ہے؟

یوم آزادی پر جنسی درندگی کی دوسری ویڈیو، کیا یہاں بھی عورت قصور وار ہے؟
لاہور میں 14 اگست کے دن ہونے والے ایک اور واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں لڑکا رکشے میں بیٹھی لڑکی کیساتھ نازیبا حرکت کرتا ہے اس کو پکڑنے کی بجائے ویڈیو بنانے والے اور دوسرے لڑکے جو موٹر سائیکلوں پر اس رکشے کہ پیچھے ہیں وہ اس حرام زادے کی ہمت کو داد دے رہے ہیں۔ اب یہ لڑکی نہ ٹک ٹاکر تھی اور نہ ہی اس نے لوگوں کو مدعو کررکھا تھا۔

اس واقعے کے بعد اب ہمیں یہ کڑوا سچ مان لینا چاہیئے کہ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر لوگ اسی گندی زہنیت کے مالک ہیں جو عورت کو گوشت کی دکان سمجھ کر بھوکے کتوں کی طرح اس پر لپک پڑتے ہیں۔

وہ لوگ جو تاویلیں پیش کررہے تھے کہ ٹک ٹاکر تھی، اس نے ایسے کپڑے پہن رکھے تھے۔ چلو مان لیا عائشہ ٹک ٹاکر جس کیساتھ مینار پاکستان پر بدسلوکی ہوئی اس نے اپنے مداحوں کو وہاں مدعو کررکھا تھا۔ دوسری ویڈیو جو آج سے سوشل میڈیا پروائرل ہے۔ یہ نہ تو ٹک ٹاکر تھی اور نہ ہی انہوں اپنے مداحوں کو مدعو کررکھا تھا اور نہ ہی فحش کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے۔

چھوٹی بچیاں جن کو ریپ کیا جاتا ہے انہوں نے کونسا فحش لباس پہن رکھا ہوتا ہے اور تو عورت یہاں عورت مر کہ قبر میں بھی محفوظ نہیں ہے بیمار زہنیت کے درندے قبروں سے نکال کر عورتوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔

اب تو ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کے عورتیں اور بچیاں اپنے گھر میں محفوظ ہیں آئے روز خبر آتی ہے کہ باپ اپنی بیٹی اور بھائی اپنے بہن کی عزت کیساتھ کھیلاتا پکڑا گیا ہے۔

ہر واقعے پر تاویلیں پیش کرنے والے ہر چیز کا ذمہ دار عورت کو ٹھہرانے والے لوگ بے شرم ہیں جن کے اندر بھی ایک ریپسٹ چھپا ہوا ہے بس اسے موقع ملنے کی دیر ہے وہ فوراً باہر آجائے گا۔

یہی لوگ جب پاکستان سے باہر جاتےہیں وہاں کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ راہ جاتی عورت کو ہاتھ بھی لگا سکیں، صرف ڈنڈے کا ڈر ہے۔ وہاں انہیں پتہ ہوتا ہے کہ ایسی حرکت پر ہمارا کوئی دفاع کرنے کو نہیں آئے گا قانون کے مطابق سخت کاروائی ہوگی جب تک ایسے اوباشوں کی سرکوبی نہیں کی جائے گی ایسے واقعات ہوتے رہے گے۔  حکومت کو چاہیے کہ ایسے بدکردار لوگوں کیخلاف سخت قانونی کاروائی کرکے انہیں سزا دلوائی جائے ورنہ یہ ناسور پھیلتا ہی چلاجائے گا۔

مصنف نے جامعہ گجرات سے صحافت کی تعلیم حاصل کی ہے اور ڈیجیٹل صحافت سے منسلک ہیں۔